پشاور کے محمود جان بابر گذشتہ 25 سالوں سے صحافت کر رہے ہیں اور اس دوران وہ مختلف صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہے۔ تین نومبر کو امریکہ میں انتخابات ہو رہے تھے، جب انہوں نے کوریج کے لیے امریکہ جانے کا ارادہ کیا۔
ان کے پاسپورٹ پر چونکہ پہلے سے 'پروفیشنل ٹائپ آئی' کا پانچ سالہ ویزا لگا ہوا تھا جو اگست 2021 میں ختم ہونا تھا لہٰذا انہوں نے ترکش ایئرلائن کا ٹکٹ خریدا۔ وہ 25 اکتوبر کو امریکہ روانہ ہونے کے لیے ایئر پورٹ پہنچے جہاں ان کا ویزا، ٹکٹ اور دیگر ضروری دستاویزات چیک کرنے کے بعد جہاز میں سوار ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
بابر کی پرواز کنیکٹنگ تھی یعنی ان کو براستہ ترکی امریکہ جانا تھا۔ جہاز چھ گھنٹے کے بعد ترکی پہنچا، جہاں سے اگلی پرواز میں ان کو امریکہ روانہ ہونا تھا۔
بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب ایئر پورٹ پر چھ گھنٹے انتظار کے بعد وہ جہاز میں سوار ہو رہے تھے تو ان کو ایئرلائن کی انتظامیہ نے روک دیا۔ 'میں نے اصرار کیا کہ کم از کم مجھے امریکہ جانے سے روکنے کی وجہ بتائی جائے، تاہم مجھے کوئی وجہ بتائے بغیر ترکی سے واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔'
بابر کے مطابق پاکستان پہنچنے پر انہوں نے ایئرلائن سے رابطہ کیا، جس پر ایک جوابی ای میل میں انہیں روکنے کی وجہ بتائی گئی۔ انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شئیر کی جانے والی اس ای میل کے مطابق بابر کو امریکہ جانے کی اجازت نہیں تھی۔
ای میل میں لکھا گیا، 'ہم نے چیک کیا کہ امریکہ کی کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے فیصلے کے مطابق آپ کو ترکی سے امریکہ جانے کی اجازت نہیں تھی، اس واقعے میں ترکش ایئرلائن کا قصور نہیں کیونکہ ویزا، پاسپورٹ اور ٹیسٹ کی شرائط ہر ملک کی الگ الگ ہیں اور یہ مسافر کی ذمہ داری ہے کہ وہ سفر کرنے سے پہلے سب چیک کرے۔'
بابر نے بتایا کہ جب انہوں نے امریکی سفارت خانے سے پوچھا تو جواب ملا کہ آپ کا ویزا امیگریشن اینڈ نیشنیلٹی ایکٹ میں درج ویزا ختم ہونے کے قانون کے تحت ختم کر دیا گیا ہے۔ امریکی امیگریشن اینڈ نیشنیلٹی ایکٹ کی دفعہ 221(i) میں لکھا ہے کہ امریکی حکام کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے امیگرنٹ یا نان امیگرنٹ کا ویزا ختم کر سکتے ہیں۔
ویزا ختم کرنے کے طریقہ کار میں لکھا ہے کہ متعلقہ ملک کا قونصل خانہ ویزا ہولڈر کو اطلاع دے گا کہ ان کا ویزا ختم کیا گیا ہے۔ قانون میں مزید لکھا گیا ہے کہ جب ویزا ختم ہونے کی اطلاع امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے کونسلر لوک آؤٹ اینڈ سپورٹ سسٹم میں آجائے تو ویزا ہولڈر کو اطلاع کی ضرورت نہیں، تاہم ان کو ویزا ختم ہونے کی تاریخ سے آگاہ کیا جائے گا۔
امریکہ سفر کرنے کے حوالے سے امریکہ کی سرکاری ویب سائٹ پر یہ بھی واضح لکھا ہے کہ اگر آپ کے پاسپورٹ پر ویزا لگا ہو تب بھی یہ گارنٹی نہیں کہ آپ کو امریکہ میں داخل ہونے کے اجازت ہے کیونکہ ہر بار امریکہ داخل ہونے سے پہلے کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن مسافر کی دستاویزات چیک کرنے کے بعد داخلے کی اجازت دیتے ہیں۔
جب بابر سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں امریکی حکام نے ویزا ختم ہونے کی اطلاع دی تھی تو انہوں نے بتایا: ’سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مجھے کوئی اطلاع نہیں تھی کہ میرا ویزا ختم ہو چکا ہے، مجھے سفارت خانے نے ترکی سے واپسی پر ای میل کے ذریعے بتایا کہ پاسپورٹ جمع کروائیں تاکہ اس پر لگا ویزا کینسل کیا جائے۔ ترکش ایئرلائن اور امریکی سفارت خانے کے اس عمل کی وجہ سے میں شدید پریشانی کا شکار ہوا۔ کم از کم ایئرلائن اور سفارت خانے کو مجھے پیشگی اطلاع دینی چاہیے تھی۔‘
امریکی سفارت خانے، ترکش ایئرلائن کو عدالتی نوٹس جاری
بابر نے ترکش ایئر لائن اور امریکی سفارت خانے کے خلاف پشاور کی مقامی عدالت میں تین ارب روپے سے زائد کے ہرجانے کی درخواست دائر کی ہے، جسے عدالت نے 25 جنوری کو سماعت کے لیے منظور کیا ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ‘ان کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے روا رکھے گئے نامناسب رویے پر امریکی حکومت کے پاکستان میں نمائندہ سفارتخانے سے جواب طلب کیا جائے اور مالی نقصان اور ذہنی کوفت کا ازالہ کرنے کے لیے ہرجانہ ادا کیا جائے۔‘
درخواست میں بابر نے پشاور میں موجود امریکی قونصل خانے، امریکی سفارت خانے، ترکش ایئر لائن اور اسلام آباد ایئر پورٹ کے امیگریشن دفتر کو فریق بنایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔
کیا ماضی میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں؟
ایوی ایشن معاملات پر نظر رکھنے والے پاکستانی صحافی طاہر عمران میاں سے جب اس معاملے پر بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اس کیس میں بنیادی غلطی پاکستانی اور ترکی امیگریشن حکام کی ہے، جنہوں نے بابر کے ویزے کے معاملے کو 'مس ہینڈل کیا۔‘
طاہر نے بتایا: ’دوسرے درجے پر معاملہ ایئر لائن کا بھی ہے جس نے بغیر اس تصدیق کہ آیا مسافر کے پاس اس کی منزل کا ویزا ہے یا نہیں، اسے پہلی پرواز پر سوار ہونے دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جیسا کہ ایک کیس میں مسافر نے ایک اور ایئر لائن کا ٹکٹ خریدا تھا لیکن ایئر لائن نے ویزا ہونے کے باجود مسافر کو جہاز میں سوار کرنے سے انکار کر دیا، جس پر وہ بھاگے بھاگے ایک اور ایئرلائن کے کاؤنٹر پر گئے، جنہوں نے انہیں فوراً اسی وقت اپنی پرواز پر سوار کرا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
260 ایئر لائنز کی تنظیم انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن پروازوں کے معیار کو بہتر بنانے اور ان پر نظر رکھتی ہے۔ اس تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال دستاویزات کو درست طریقے سے چیک نہ کرنے کی وجہ سے 60 ہزار تک مسافروں کو اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے واپس بھیج دیا جاتا ہے، جس سے ایئر لائنز کو کروڑوں ڈالرز کا تقصان ہوتا ہے۔
اسی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 25 ہزار مسافروں میں سے ایک مسافر بغیر تصدیق شدہ دستاویزات کے ساتھ سفر کرتا ہے اور اس سے ایئر لائنز کو فی مسافر پانچ لاکھ روپے تک نقصان ہوتا ہے کیونکہ جب ایئر لائن کسی مسافر کو بغیر تصدیق اور ویری فیکشن کے کسی ملک لے جاتی ہے تو ان کی واپسی ایئرلائنز کے ذمے ہوتی ہے یعنی جس سیٹ پر وہ مسافر جاتا ہے اسی پر درست اور تصدیق شدہ مسافر جا سکتا تھا لیکن وہ موقع ضائع ہوجاتا ہے۔
اس رپوٹ میں اس مسئلے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایئر لائنز کو کچھ ممالک کے قوانین کے مطابق پابند بنایا گیا ہے کہ وہ مسافروں کی دستاویزات درست طریقے سے چیک کریں تاہم ایئر لائنز کو صرف اس حد تک رسائی موجود ہوتی ہے کہ وہ مسافر کے فزیکل ویزا اور دیگر دستاویزات چیک کریں جبکہ ایئر لائنز فرانزک تصدیق نہیں کر سکتیں۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’ایئر لائنز کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ ویزا کو چیک کریں کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسافر کے پاسپورٹ پر ویزا لگا ہو لیکن شاید وہ اس ملک میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک بار کے لیے لگا ہو یا ویزا کینسل کر دیا گیا ہو۔‘
اس طرح کی صورت حال سے کیسے بچا جائے؟
ہزاروں کی تعداد میں مسافر بغیر تصدیق کے یا دستاویزات کے درست ہونے کی جانچ کیے بغیر اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں اور بعد میں ان کو پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے طاہر نے کہا: ’آسان طریقہ یہ ہے کہ ہر مسافر اپنے ویزے کا آن لائن سٹیٹس چیک کرے تاکہ اسے پتہ ہو کہ ویزا ختم تو نہیں ہوا۔‘
اس ساری صورت حال پر انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان کو ای میل کی تاکہ ان کا موقف جان سکیں تاہم انہوں نے مختصراً جوابی ای میل میں بتایا: ’ہم انفرادی کیسز پر پرائیویسی کے وجہ سے تبصرہ نہیں کرتے۔‘ اس حوالے سے اسلام آباد میں ترکش ایئر لائن کے دفتر پر بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔