خیبر پختونخوا کی وزارت قانون و انصاف کی جانب سے منگل (پانچ جنوری) کو جاری ہونے والے ایک اعلامیے کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پشاور ہائی کورٹ کے سینیئر جج اور قائم مقام چیف جسٹس قیصر رشید خان کو مستقل چیف جسٹس کا عہدہ سونپ دیا ہے۔
قیصر رشید خان پشاور ہائی کورٹ کے31 ویں چیف جسٹس ہوں گے۔ وہ چیف جسٹس کی حیثیت سے جلد ہی حلف اٹھائیں گے۔
قیصر رشید خان پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی وفات کے بعد 13 نومبر کو آئین کے آرٹیکل 196 کے تحت قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات ہوئے تھے اور اب صدر مملکت نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی منظوری دیتے ہوئے قیصر رشید کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کی توثیق بھی کر دی ہے۔
قیصر رشید خان 31 مارچ 1961 کو ضلع مالاکنڈ کے گاؤں 'تھانہ' میں خوانین کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کیپٹن نثار خان علاقے میں ایک معتبر شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ تھانہ کے حوالے سے مقامی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں کی تقریباً 100 فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔
جسٹس قیصر رشید نے ابتدائی تعلیم کیڈٹ کالج کوہاٹ اور اسلامیہ کالج پشاور سے حاصل کی ہے اور پھر 1984 میں خیبر لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کرکے اسی سال ذیلی عدالتوں (لوئر کورٹس) میں بطور ایڈوکیٹ پریکٹس شروع کی۔اس دوران انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور پشاور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور صحافت میں ایم اے کیا۔
اپنے 37 سالہ کیریئر میں انہوں نے سپریم کورٹ سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں اہم عہدوں پر کام کیا۔ وہ انسپکشن جج، انچارج جج پشاور ہائی کورٹ، چیئرمین سب آرڈینیٹ جوڈیشل سروسز، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل، لیگل ایڈوائزر برائے قومی بینکس اور دیگر اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔
2007 میں پاکستان میں وکلا تحریک کے دوران خیبر پختونخوا میں جسٹس قیصر رشید کا کردار کافی نمایاں رہا، اسی پس منظر میں ایمرجنسی رول کے نفاذ کے تحت وہ پہلے وکیل تھے جنہیں گرفتار کیا گیا تھا اور ایک دن کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان کی حوالات میں نظر بند کردیا گیا تھا۔
وکلا برادری میں ان کی شہرت کی وجہ سے انہیں خیبرپختونخوا وکلا بار کونسل کا رکن بھی بنایا گیا، علاوہ ازیں 2010 میں نمایاں کارکردگی کے ساتھ وہ پاکستان بار کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔
بطور جج ان کا کردار کیسا رہا ہے؟
چیف جسٹس قیصر رشید خان کو وکلا اور عوامی حلقوں میں ایک زیرک اور معاملہ فہم جج کے طور پر مانا جاتا ہے اور مختلف معاملات پر ان کے ذہین اور دلچسپ تبصروں کو کافی سراہا جاتا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل علی عظیم آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قیصر رشید خان عدالت میں ڈیکورم اور قوانین کی پاسداری کا سختی سے نوٹس لیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'چاہے وکیل ہوں یا کوئی عام شہری وہ لباس، صفائی ستھرائی اور عدالت کے اصولوں کی پاسداری جیسے نکتوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے فیصلوں میں توازن کا پہلو برقرار رکھتے ہیں۔' تاہم انہوں نے کہا کہ کسی بھی نئے چیف جسٹس کے فیصلوں کا تعلق ان کے سٹاف سے بھی ہوتا ہے۔
'مثال کے طور پر نئے چیف جسٹس کے ساتھ بعض عہدے جیسے کہ ہائی کورٹ رجسٹرار، پرنسپل سٹاف افسر، ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کے تبادلے ہوجاتے ہیں۔ عدالت میں ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا عہدہ سب سے اہم ہوتا ہے کیونکہ بنیادی طور پر کیسز کی طرف چیف جسٹس کی توجہ دلانا اس دفتر کا کام ہوتا ہے، مزید برآں یہ دفتر وکلا اور چیف جسٹس کے درمیان رابطے کا کام بھی کرتا ہے۔ '
وکیل ہائی کورٹ نے مزید بتایا کہ اگر ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل دفتر کے افسر میں عوامی معاملات کی سمجھ نہ ہو تو اس کا اثر چیف جسٹس کی وجہ شہرت پر پڑتا ہے اور کئی اہم مقدمے سرد خانے کی نظر ہو سکتے ہیں۔ وکیل علی عظیم آفریدی نے مزید بتایا کہ نئے چیف جسٹس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق ان کے زیادہ تر فیصلے عوامی مفاد میں ہوئے ہیں اور وہ خود معاملات اور واقعات پر نوٹس لیتے رہے ہیں۔ حال ہی میں عامر تہکالے تشدد کیس کا بھی انہوں نے نوٹس لے کر ملوث اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔