سری لنکا کے صدر کا کہنا ہے ایسٹر کے موقع پر بم دھماکے کرنے والی شدت پسند تنظیم کے لیڈر بھی ممکنہ طور پر ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ حکام نے داعش سے تعلق کے شبہے میں کم از کم 140 افراد کو حراست میں لیا ہے۔
ایک نیوز کانفرنس سے بات کرتے ہوئے صدر میتھریپالا سری سینا نے کہا کہ ظہران ہاشم جو کہ محمد زہران کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں ان دو خودکش حملہ آوروں میں سے ایک تھے جنھوں نے کولمبو میں شنگری لا ہوٹل کو نشانہ بنایا تھا۔
ظہران ایک شدت پسند مبلغ تھے جن کے ویڈیو ویب سائٹ یوٹیوب پر ہزاروں کی تعداد میں فاوورز تھے اور ان کا نام حملوں سے قبل پولیس دستاویز میں بھی موجود تھا۔
تین صفحات پر مشتمل دستاویز جو کہ صدر کے مطابق ان کو مہیا نہیں کی گئی تھی کے مطابق زہران نیشنل توحید جماعت نامی تنظیم کے لیڈر تھے۔
سری لنکا میں کسی ’انقامی کارروائی‘ کے خوف سے جمعے کو مساجد کے باہر سخت سکیورٹی کا انتظامات کیے گئے تھے۔
اس سے قبل حکومت نے بم دھماکوں میں ہلاکتوں کے نظرثانی شدہ اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ مرنے والوں کی تعداد 359 نہیں بلکہ 253 ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق، سری لنکن حکام کا موقف تھا کہ بم دھماکوں والے مقامات پر بکھرے انسانی اعضا کی شناخت میں مشکل کی وجہ سے ہلاکتوں کے غلط اعداد وشمار سامنے آئے۔
نائب وزیردفاع رووان وجے وردھنے کا کہنا ہے کہ مردہ خانوں کی جانب سے فراہم کردہ غلط اعداد وشمار بھی ہلاکتوں کی تعداد میں فرق کی وجہ بنے۔
سری لنکا کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل انیل جاسنگھے نے روئٹرز کو بتایا کہ ہلاکتوں کے اعداد وشمار محض اندازے کی بنیاد تیار کیے گئے تھے اور بم دھماکوں کے نتیجے میں 250 سے 260 ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بم دھماکوں کے بعد انسانی اعضا ہرطرف بکھر گئے اس لیے مرنے والوں کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے۔
سری لنکا میں تین گرجا گھروں اورچار پرتعیش ہوٹلوں میں بم دھماکوں سے خفیہ اداروں کی ناکامی سامنے آئی ہے۔
یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ دھماکوں کے حوالے سے کسی انتباہ پرتوجہ نہیں دی گئی۔ حکومت میں اعلیٰ سطح پرموجود اختلافات کی وجہ سے ملکی سلامتی میں تعاون متاثرہوا ہے۔
سری لنکا کے وزیر دفاع ہماسری فرنانڈو نے دھماکے روکنے میں ناکامی پراستعفیٰ دے دیا ہے۔ تاہم ان کا اصرارہے کہ ملکی حکام بھارت کی جانب سے خفیہ اطلاعات اور حملوں کے انتباہ کے بعد کام میں مصروف تھے۔
ادھر، پولیس نے دہشت گرد حملوں میں مطلوب چار مردوں اور تین عورتوں کے نام اور تصاویر جاری کرتے ہوئے عوام سے ان کے بارے میں اطلاع دینے کی درخواست کی ہے۔