دفعہ 295: توہین مذہب کا قانون جس کی تشکیل میں قائدِ اعظم نے مدد کی

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 ایک صدی پرانا قانونی فریم ورک ہے اور اس کا مقصد برٹش انڈیا میں مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھنا تھا۔

آج کل تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 خبروں میں ہے۔ خاص طور پر یو ٹیوبر رجب بٹ کے کیس کے بعد جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ وہ 295 نام کی خوشبو لانچ کر کے توہینِ مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں۔

295 اے بی اور سی کے متعلق تو اکثر لوگوں کو علم ہے، لیکن یہ کم کو معلوم ہے کہ یہ ایک صدی پرانا قانونی فریم ورک ہے، جس کی تیاری میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کا مقصد برٹش انڈیا میں مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھنا تھا۔

یہ قانون کیسے وجود میں آیا اور قائد اعظم کا اس میں کیا حصہ تھا، یہ تاریخ کا ایک بہت دلچسپ باب ہے۔

جب انڈیا میں 1860 اور 70 کی دہائیوں میں چھاپہ خانہ عام ہوا تو اس کے ساتھ ہی متحدہ پنجاب میں ایک افسوس ناک سلسلہ شروع ہو گیا۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں نے ایک دوسرے کے مذہب پر حملہ کرنے کی غرض سے اشتعال انگیز رسالے اور پمفلٹ چھاپنے شروع کر دیے۔

یہ معاملہ اس وقت اپنے عروج تک پہنچ گیا جب 1924 میں راجپال نامی ایک ناشر نے ایک انتہائی نفرت انگیز کتاب چھاپی، جس سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ گاندھی نے بھی اس کی مذمت کی۔

ہر طرف سے مطالبہ ہونے لگا کہ راجپال کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ تعزیراتِ ہند میں اس بارے میں کوئی قانون نہیں تھا۔

راجپال کے خلاف دفعہ 153 اے کے تحت مقدمہ چلا جس کا تعلق مختلف گروہوں کے درمیان منافرت پھیلانے سے تھا۔ یہ قانون اتنا غیر متعلق تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 1926 میں راجپال کو بری کر دیا، جس کے خلاف مظاہروں اور فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 

اب ضرورت محسوس ہونے لگی کہ یہ دفعہ ناکافی ہے اور توہینِ مذہب سے نمٹنے کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے 1927 میں تعزیراتِ ہند میں دفعہ 295 اے متعارف کروائی گئی، جس کے تحت کسی بھی مذہب کے خلاف توہین آمیز حملے جرم قرار دیے گئے۔ یہ متحدہ ہندوستان میں توہینِ مذہب کا پہلا قانون تھا۔

تاہم جب یہ مسودۂ قانون لیجسلیٹیو اسمبلی میں پیش ہوا تو محمد علی جناح نے یہ کہتے ہوئے اس کی مخالفت کی کہ اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔

یہ معاملہ قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی کے پاس پہنچا، جس میں ہندوستان کے چوٹی کی تین قانون دانوں کو دعوت دی گئی کہ اس قانون کو بہتر بنایا جائے۔ ان کمیٹی میں قائد اعظم بھی شامل تھے۔

کمیٹی نے قانون میں یہ اضافہ کیا کہ توہین کا مقصد بھی واضح ہونا چاہیے کہ وہ ’جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کی گئی ہو اور توہین کرنے والے کا ارادہ شہنشاہ معظم کی رعایا کے کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت بھی قائد اعظم کو احساس تھا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے قانون کی منظوری کے بعد کہا تھا، ’اگرچہ میں اس اصول کی مکمل حمایت کرتا ہوں کہ اس اقدام کا مقصد ان ناگوار افراد کو نشانہ بنانا ہے جو کسی خاص طبقے کے مذہب یا کسی مذہب کے بانیوں اور پیغمبروں کو بے وجہ بدنام کرتے ہیں یا ان پر حملہ کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بہت اہم اور بنیادی اصول کو بھی محفوظ بنانا چاہیے کہ وہ لوگ جو تاریخی تحقیق میں مصروف ہیں، جو کسی مذہب پر نیک نیتی اور ایمانداری سے بحث کر رہے ہیں، انہیں تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔‘

تقسیم کے بعد پاکستان کو تعزیراتِ ہند وراثت میں ملی، جس میں دفعہ 295A  بھی شامل تھی۔ تاہم 1980 کی دہائی میں جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین میں اہم تبدیلیاں کی گئیں اور پانچ نئی دفعات کا اضافہ کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ مقدمہ چلانے کا معیار کم کر کے سزاؤں میں ان میں سزائے موت کا اضافہ کر دیا گیا۔  

انڈیا میں بھی دفعہ 295 آج بھی رائج ہے اور اس کے تحت کئی مشہور مقدمات قائم ہوئے ہیں۔ 2018 میں ایک صحافی محمد زبیر کو بھی اسی شق کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی طرح 2022 میں بی جے پی کی ایک رہنما نے اسلام کے بارے میں مبینہ طور پر توہین آمیز کلمات ادا کیے تھے جس کے بعد ان پر دفعہ 295 اے لگی تھی۔ 

سدھو موسی والا نے اپنے 295 نامی ایک گیت میں اسی شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مذہب کے بارے میں بات کرو تو یہ دفعہ لگ جاتی ہے۔  

رجب بٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی بدنیتی کی غرض سے نہیں بلکہ سدھو موسیٰ والا کے گانے سے متاثر ہو کر خوشبو کا نام رکھا تھا۔ 

تاہم قائد اعظم کی متعارف کردہ شق کہ بدنیتی بھی ثابت ہو، قانون میں سے ہٹا دی گئی ہے، اس لیے اب دیکھنا باقی ہے کہ عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا