طالبان نے مبینہ طور پر افغانستان میں ایل جی بی ٹی کیو پلس کمیونٹی کے کم از کم دو ارکان کو اس وقت حراست میں لے لیا، جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ ایران جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
حراست میں لی گئی مریم رویش کی ہم جنس ساتھی پروین حسینی نے بدھ کو دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ 19 سالہ مریم اور 23 سالہ میئیو السینا پیئسکو کو، جو ٹرانس جینڈر ہیں، گذشتہ جمعرات (20 مارچ) کو کابل ایئرپورٹ سے اس وقت لے جایا گیا، جب وہ تہران جانے والی صبح کی پرواز میں سوار ہو رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ مریم رویش اور پروین حسینی، جو تقریباً چار سال سے تعلق میں تھیں، طالبان کی نگرانی سے فرار ہو کر ایران جانا چاہتی تھیں۔ اس فرار کی دستاویزی فلم میئیو نے بنانی تھی۔ تینوں نے مہان ایئر کی پرواز سے روانہ ہونا تھا، جو صبح 10:35 پر کابل سے روانہ ہو کر دوپہر 1 بجے تہران پہنچنے والی تھی۔
چونکہ طالبان حکومت خواتین سے مرد سرپرست کے ساتھ سفر کرنے کا تقاضا کرتی ہے، انہیں ایک ٹریول ایجنٹ کو ساتھ لے جانا پڑا۔ ٹریول ایجنٹ کے موجودہ مقام کا فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان میں ایل جی بی ٹی کیو پلس کمیونٹی کی تنظیم روشنیہ کے سی ای او نعمت سادات کے مطابق پروین بغیر کسی مشکل کے پرواز میں سوار ہو گئیں، لیکن مریم اور میئیو کو طالبان کے انٹیلی جنس ایجنٹوں نے روک لیا، انہوں نے ان کے فون چیک کیے اور معلوم کیا کہ وہ ہم جنس پرست کمیونٹی کے رکن ہیں۔
نعمت سادات نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’مجھے آخری بار ان کے بارے میں اس وقت پتہ چلا، جب طالبان کے مسلح افراد انہیں ایئرپورٹ کے اندر ایک کار میں لے جا رہے تھے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اب انہیں گرفتار کر کے کابل میں طالبان کی حراست میں رکھا گیا ہے۔‘
نعمت سادات، جو مریم اور میئیو کے ساتھ ایک سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہے تھے، ان کی خیریت کے بارے میں فکر مند ہیں کیونکہ طالبان کی جیلیں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ’انتہائی سخت‘ جانی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’طالبان خواتین کو کچھ خاندانی ضمانتوں کے ساتھ جیلوں سے رہا کر دیتے ہیں، لیکن امکان ہے کہ وہ ٹرانس کمیونٹی کے ارکان کو سزا دینے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور یہاں تک کہ جیل میں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ بہت ممکن ہے کہ میئیو اس وقت طالبان کی جیل میں سزا بھگت رہی ہوں۔‘
نعمت سادات نے بتایا کہ روشنیہ نے تینوں ایل جی بی ٹی کیو پلس ارکان کو افغانستان سے محفوظ طریقے سے نکالنے کے لیے پانچ ہزار (تقریباً 3,865 پاؤنڈ) سے زیادہ کا خرچہ اور کئی مہینوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ این جی او نے افغانستان میں ہم جنس پرست تعلقات میں ہونے کی ان کی کہانی کو دستاویزی شکل دینے کا بھی منصوبہ بنایا تھا۔
دی انڈپینڈنٹ کو مریم رویش، پروین حسینی اور میئیو کے لیے افغانستان سے روانگی کے لیے حاصل کیے گئے ہوائی جہاز کے ٹکٹ، پاسپورٹس اور ویزوں کی نقول دکھائی گئیں۔
نعمت سادات نے کہا: ’اس مسئلے کی اصل جڑ طالبان کی اسلامی شریعت کی تشریح میں ہے، جو ہم جنس پرستی کو حرام قرار دیتی ہے اور خواتین کی جگہ گھر میں تصور کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان خواتین اگر تنہا گھر سے باہر نکلنا یا سفر کرنا چاہیں تو ان کے ساتھ ایک مرد سرپرست ہونا لازمی ہے۔‘
پروین حسینی نے بتایا کہ انہیں اور مریم رویش کو دسمبر 2021 میں سکول میں ایک دوسرے سے محبت ہوئی، جو طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد کا وقت تھا۔ شہر میں ایک ہم جنس پرست تعلق قائم رکھنا مشکل تھا، اس لیے انہوں نے ایک سال بعد یہ تعلق ختم کر دیا۔
پروین حسینی نے تہران سے دی انڈپینڈنٹ کو فون پر بتایا، تاہم 2023 میں انہوں نے دوبارہ ساتھ ہونے کی ہمت کی۔
ان کا منصوبہ تھا کہ وہ اس ہفتے ایران میں ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گی، کیونکہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ افغانستان میں ان کا رشتہ ان کے خاندانوں کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا۔
پروین حسینی نے کہا: ’میری اذیت ناقابلِ بیان ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں افغانستان سے نکلوں گی تو مریم کے بغیر نہیں جاؤں گی۔ وہ جانتی تھیں کہ انہیں اپنا خاندان چھوڑنا پڑے گا کیونکہ وہ ہمیں کبھی قبول نہیں کریں گے۔ میں ایران میں ہر لمحہ اکیلی اور اس احساسِ جرم کے ساتھ گزار رہی ہوں کہ میری ساتھی جیل میں ہے، صرف اس وجہ سے کہ ہم افغانستان سے فرار ہونا چاہتے تھے۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے طالبان سے اس معاملے پر تبصرہ لینے کے لیے رابطہ کر رکھا ہے۔
© The Independent