صحافت اور خطرات کا توہمیشہ سے ہی چولی دامن کا ساتھ تھا لیکن دہشت گردی کی عالمی جنگ سرزمین پاکستان پر آئی تو پھر پتہ چلا کہ دھمکی یا دھمکیاں آخر ہوتی کیا ہیں۔
خیبرپختونخوا، سابق فاٹا اور بلوچستان کے صحافیوں کی اکثریت اس عمل سے بخوبی واقف ہے لیکن چند ’واقعات‘ سہنے کے باوجود میں بھی اس لفظ کو سن کر زیادہ خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ مگر 14 دسمبر 2008 کی یخ بستہ صبح کو مجھے ایسی فون کال آئی کہ سردی میں پسینے چھوٹ گئے۔
میں اپنے بچوں کو سکول ٹرانسپورٹ پر سوار کروا کے گرم رضائی میں سو گیا تھا کہ موبائل کی گھنٹی نے اٹھا دیا۔ میں نے دیکھے بغیر فون اٹھایا تو فون کرنے والا ٹھیٹھ قبائلی لہجے اور پشتو زبان میں چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا ’تم دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے ہو، تم نے گستاخی کی ہے۔‘
میں نے اس سے زیادہ اونچی آواز میں چلا کر کہا تم کون ہو اورمیرے دائرہ اسلام سے تمہارا کیا تعلق ہے؟ وہ پھر چیخا کہ ’تم ابراہیم خان ہو اور ایک بے حیا اخبار (آج کل) کے پشاور میں مشر(سربراہ ) ہو۔ تم نے ہمارے امیر منگل باغ کی شان میں بکواس کی ہے۔‘
یہ سن کر میری سٹی غم ہوگئی کیونکہ 2008 وہ دور تھا کہ جب چھوٹی موٹی عسکری تنظیم کا اہلکار بھی دھمکی دیتا تو پیروں تلے سے زمین نکل جاتی تھی اور میرا پیچ تو خیبر ایجنسی کے بے تاج بادشاہ منگل باغ سے پڑ گیا تھا۔
حالات کی نزاکت کو جانتے ہوئے مرتا کیا نہ کرتا میں نے کالر سے کہا کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ امیر صاحب( منگل باغ ) تو میرے بھی امیر ہیں، میں یا میرا کوئی ساتھی کیوں ان کی شان میں گستاخی کرے گا ؟
کالر نے گرجتے ہوئے کہا کہ گستاخ کا نام بتاو ۔ میں نے جواب دیا کہ پشاور سے کوئی خبر ایسی نہیں گئی جس میں گستاخی کا شائبہ تک ہو۔
اس نے مجھے اخبار دیکھنے کو کہا تو میں نے جواب دیا کہ ابھی ہاکر میرا اخبار نہیں لایا جوں ہی آئے تو میں دیکھتا ہوں ۔ مجھے زندگی میں کبھی بھی اخبار کا اس قدر بے صبری سے انتظار نہ تھا ۔ میں رضائی چھوڑ کر گلی میں جاکر کھڑا ہوگیا۔
اخبار پہنچا تو میں نے دیوانہ وار اسے الٹا پلٹا، پشاور کی ہر خبر دیکھی لیکن منگل باغ سے متعلق کوئی خبر نہ پاکر اطمینان ہوا کہ جان بخشی ہو گئی۔
اسی خوشی میں تھا کہ فون بجا اور وہی گرجدار آواز سننے کو ملی وہ کہہ رہا تھا ’لڑکے دیکھ لیا اخبار؟‘ میں نے کہا دیکھ لیا لیکن اس میں کوئی گستاخی نہیں، بلکہ امیر صاحب( منگل باغ ) کی کوئی خبر ہی نہیں۔
اس نے کہا ’میں بتاتا ہوں۔‘ تھوڑی دیر بعد کال آئی تو مجھے پتہ چلا کہ اداریے میں منگل باغ کی شان میں گستاخی ہوئی ہے جو لاہور سے لکھا جاتا تھا۔
میں نے کہا کہ یہ اداریہ لاہور میں لکھا جاتا ہے میرا یا میرے کسی رپورٹر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کے پوچھنے پر میں نے اسے بتا دیا کہ اداریے کے اوپر لاہور آفس کا نمبر درج ہے ۔ اس نے تھوڑی دیر بعد فون کیا کہ لاہور والے نمبر پر ایک بی بی (آپریٹر) کہہ رہی ہے کہ دفتر میں ابھی کوئی نہیں ہے۔
میں نے کہا بس وہیں سے پتہ چلے گا تو اس نے غصے سے کہا کہ ’میں اور کچھ نہیں جانتا۔ یہاں ( پشاور میں) تم بڑے ہو اور تم ہی ذمہ دار ہو اور ہم تمہیں دیکھ لیں گے۔‘ اس نے فون بند کر دیا لیکن فون کالز کا ایک لمبا سلسلہ چل نکلا۔ ہر کال میں مجھے قصوروار قرار دے کر مجھے قتل کرنے کی نوید سنا دی جاتی ۔ ان کالز کی اس قدر بہتات ہوچکی تھی کہ میں خود کواگلے چند دنوں میں صحافت کے شہدا میں دیکھنے لگا تھا۔ ان کالز کی ساری گفتگو تو یہاں بیان نہیں کی جاسکتی لیکن چند سیکنڈ کی جس کال نے میرے ہاتھ پاوں پھلا دیے وہ من و عن رقم کررہا ہوں۔
کال میں نے اٹینڈ کی تو کالر نے پوچھا کیا وقت ہے؟ میں نے جواب دیا کہ دن کے گیارہ بجے ہیں۔ اس نے کہا کہ ’ہم تمہیں شام چھ بجے سے پہلے ذبح کر دیں گے‘ اور ساتھ ہی فون بند ہو گیا ۔ جس شخص کو ایک ہفتے سے ایسی کالز آرہی ہوں اس پر یہ کال سن کر کیا گزری ہو گی، اس کا ادراک کیا جاسکتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں اپنی باقاعدہ لکھی ہوئی فریاد اس وقت کے آئی جی پولیس ملک نوید کے پاس لے کر ان کے دفتر بھی گیا۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کے عین نیچے بیٹھے آئی جی نے قیمتی مشورہ یہی دیا کہ ’ہم آپ کو گھر یا دفتر میں سیکیورٹی دے دیں گے لیکن یہ لوگ اپنے ٹارگٹ کو نہیں چھوڑتے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ آپ ان سے کوئی تصفیہ خودکرلیں ۔‘
ان دنوں خوف کا یہ عالم تھا کہ گھر سے باہر ہر ایک مجھے ایسا دکھائی دیتا کہ اب مجھ پر حملہ آور ہو جائےگا۔ بہر حال میں نے یہ صورتحال اپنے گھر میں کسی سے شئیر نہیں کی اور ہر وقت اپنے اردگرد نظر رکھتا، تاہم ان کالز کے نویں روز میرا دفتر سے گھر تک کالے شیشوں والی ایک نئی مہران کار نے تعاقب شروع کر دیا۔
اس تعاقب پر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کہ منگل باغ کے دربار میں ہی جا کر پیش ہوجاوں، باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
اس سلسلے میں باڑہ کے صحافی دوستوں سے رابطہ کیا، نصراللہ آفریدی( مرحوم ) اور قاضی روف نے منگل باغ سے بات کی کہ روزنامہ آج کل کے بیورو چیف ابراہیم خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں جو انہوں نے مان لی۔
یوں پہلی کال کے ٹھیک دسویں دن صبح ہی صبح میں قاضی روف اور پشاور کے دو مقامی صحافیوں ناصر حسین اور سفیر اللہ کے ساتھ باڑے روانہ ہوگیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم نے ٹو پیاں پشاور سے ہی پہن لی تھیں جو منگل باغ کی راجدھانی میں پہننا لازمی تھیں۔ ہم باڑے پہنچے تو منگل باغ کے ترجمان نے بڑے جارحانہ انداز میں استقبال کیا۔ اس نے اطلاع دی کہ منگل باغ باڑہ کے بالائی علاقے نرے بابا میں ہیں ۔
ہم نے اپنی گاڑی وہیں چھوڑی اور منگل باغ کی گاڑیوں میں نرے بابا کی طرف روانہ ہوئے۔ نرے بابا کو منگل باغ کی راجدھانی قرار دیا جاسکتا ہے جہاں اس کی شوریٰ کے اراکین بھی ہوتے تھے۔
اس کے دربار میں کوئی کرسی نہیں تھی، منگل باغ سمیت سب زمین پر بیٹھتے تھے۔ اس دربار میں ہم چاروں نصراللہ مرحوم کے ساتھ پہنچے تو میرے ساتھیوں کو منگل باغ نے اپنے ساتھ بٹھایا اور میں تن تنہا جیسے کٹہرے میں سامنے بیٹھ گیا۔
مجھے اپنا تعارف کرانے کو کہا گیا میں نے اپنا نام بتا کر ابھی ’آج کل‘ ہی کہا تھا کہ سامنے کی دوسری لائن سے ستر سالہ قوی شخص گھٹنوں کے بل میرے سامنے آیا اور کندھے پر لٹکا خنجر نکال کر کہنے لگا تم ایک ’بے حیا اخبار‘ کے بڑے ہو، میں تمہیں یہیں ذبح کرتا ہوں۔
اس خنجر پر جگہ جگہ سوکھا خون جما تھا جسے میں دیکھ رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر جو مجھ پر بیتی وہ میں کبھی یاد نہیں کرنا چاہتا۔ بہرحال اس کا ارادہ دیکھ کر منگل باغ نے کہا کہ یہ جرگہ کے طور پر آئے ہیں پہلے بات کرتے ہیں پھر فیصلہ کریں گے۔
منگل باغ ہمیں اس کمرے سے نکال کر کھلے آسمان تلے لے آیا جہاں میں نے اس سے باقاعدہ معافی مانگی جو اس نے قبول کی، تب جا کر میری گلو خلاصی ہوئی۔
منگل باغ نے کہا کہ آج سے تم میرے چھوٹے بھائی ہو۔ منگل باغ کا گلہ بھی بجا تھا، اس نے کہا کہ میں نے کبھی چوری نہیں کی لیکن تمہارے اخبار نے مجھے چور لکھا۔
منگل باغ کی اس پیشی میں بہت سی صحافتی کہانیاں بنیں۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ منگل باغ نے مجھ سے پوچھا کہ تم پنجابیوں کے اخبار میں کیوں کام کرتے ہو؟
میں نے کہا کہ تمام اخبارات کے مالکان پنجابی ہیں تو اس نے پوچھا کہ اخبار شروع کرنے کے لیے کتنا سرمایہ درکار ہے؟ میں نے کہا کم از کم پانچ کروڑ روپے۔ تو اس نے کہا مجھے پانچ امیر کبیر لوگوں کے نام بتاو میں انہیں اغوا کرکے ان سے رقم لیتا ہوں اور پھر تم میرا اخبار چلاو گے کیا تم تیار ہو؟
میرا جواب آپ سوچ سکتے ہیں کیا ہوگا۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور پشاور کی راہ لی۔ میرا اضطراب اس وقت ختم ہوا جب میں نے اختتام حدود خیبر ایجنسی اور آغاز حدود پشاور دیکھا۔
منگل باغ نے اس کے بعد متعدد بار خصوصی دعوت پر مجھے بلایا اور میں وہاں گیا لیکن جو بے چینی اور بے یقینی میں نے 24 دسمبر 2008 کے دورے میں ایک ملزم کی حیثیت سے محسوس کی میں اسے یاد نہیں رکھنا چاہتا۔