2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ تھا: ترک وزیر خارجہ

انقرہ اس سے قبل بغاوت کا الزام امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن پر عائد کرتا رہا ہے۔ تاہم اس مرتبہ ترک وزیر خارجہ نے براہ راست امریکہ پرالزام لگایا ہے۔

ترکی میں ناکام بغاوت میں ملوث فوجیوں کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

ترک وزیر داخلہ نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ 2016 میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے اس کا ہاتھ تھا۔

اس سے قبل ترکی اس بغاوت کا الزام امریکہ میں مقیم تبلیغی رہنما فتح اللہ گولن پر عائد کرتا رہا ہے۔ تاہم جمعرات کو ترک وزیر خارجہ نے اس کا الزام براہ راست امریکہ پرعائد کیا جو اس کا نیٹو اتحادی ہے۔

2016 میں 15 جولائی کو صدر طیب اردوان کی حکومت ختم کرنےکی کوشش میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ کچھ فوجی کمانڈرز نے جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں اور کچھ ریاستی اداروں پر قبضہ کر لیا تھا۔

انقرہ اس سے قبل اس بغاوت کا الزام صدر اردوان کے سابق اتحادی گولن پر لگاتا رہا ہے، جو اس وقت امریکی ریاست پینسلوانیا میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم فتح اللہ گولن اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

ترکی کے وزیر خارجہ سلیمان سوئلو نے حریت نیوز کو بتایا کہ امریکہ نے اس بغاوت کی منصوبہ بندی کی جبکہ گولن کے نیٹ ورک نے اس پر عمل کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یورپ اس پر بہت خوش تھا۔ ’امریکہ 15 جولائی کی بغاوت کے پیچھے تھا اور فیٹو (فتح اللہ گولن کی تحریک) اس پر عمل کر رہی تھی۔‘

انقرہ اس وقت امریکہ سے اپنے تعلقات کی بحالی کی کوششیں کر رہا ہے، جس نے گذشتہ سال روس سے دفاعی نظام خریدنے پر انقرہ پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ دوسری جانب یورپی یونین نے بھی یونان سے تنازعے پر ترکی کو پابندیوں کی دھمکی دے رکھی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترکی حالیہ ہفتوں میں اس بات کا اعادہ کر چکا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ مثبت تعلقات رکھنا چاہتا ہے اور صدر جو بائیڈن کے تحت امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے۔

اس ناکام بغاوت کے بعد سے ترکی میں دو لاکھ 92 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا، جن پر گولن سے تعلق کا الزام ہے جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کو برطرف کر دیا گیا۔ اسی طرح میڈیا کے سینکڑوں ادارے بھی بند کر دیے گئے جبکہ درجنوں قانون ساز اس وقت زیر حراست ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا