عمران خان حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے 10 جماعتی اپوزیشن اتحاد اپنے حتمی مراحل کی طرف گامزن اور آخری چند پتّے کھیلنے کے لیے تیار ہو چکا ہے۔
سینیٹ انتخابات کے بعد اب یا تو حکومت کے لیے یا پی ڈی ایم کے لیے آر یا پار ہوگا۔ اپوزیشن اتحاد کے قیام سے لے کر آج تک گذشتہ چار ماہ میں پی ڈی ایم سے نمٹنے کے لیے حکومت کی اپنی تو کوئی خاص حکمتِ عملی نہیں رہی سوائے پریس کانفرنسوں، بیانات اور تقریروں/ انٹرویوز پر ہی اکتفا کرنے کے۔
پی ڈی ایم کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت اپوزیشن کی سیاسی چالوں کا ہی انتظار کرتی رہی اور ہر چال کے جواب میں وقتی جوابی چال پر ہی گزارہ کرتی رہی۔ دوسری جانب اپوزیشن تحریک بھی ڈرامائی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ جلسے جلوسوں کا آغاز تو بھرپور کیا گیا لیکن کچھ تو بوجہ سرد موسم، کچھ سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات و تضادات، بعض جماعتوں کے سیاسی رہنماؤں کی عدم دلچسپی، وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے ان کی رفتار اور (momentum) سُست پڑتا گیا جس سے حکومت کو حاوی ہونے کا موقع بھی میسّر آنا شروع ہوگیا۔
لاہور جلسے کے بعد عموماً اور سینیٹ انتخابات کی حکومتی چال سے خصوصاً اپوزیشن تحریک ماند سی پڑ گئی باوجود اس کے کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز مصنوعی تنفّس سے اِسے زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ بیچ میں پیپلزپارٹی کی مختلف سیاست کی کوشش بھی پی ڈی ایم کو ٹریک بدلنے پر مجبور اور کنفیوژ کرتی رہی۔
ایک بات کا کریڈٹ لیکن بہرحال اپوزیشن اتحاد کو دیا جانا چاہیے کہ باوجود تمام تر نشیب و فراز اور اختلافات اور دراڑوں کی خبروں کے ایک بار پھر پی ڈی ایم یک جا ہو کر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ عارضی ریلیف کا جو وقتی سکھ کا سانس حکومت کو مِلا بھی تھا وہ دوبارہ سے اُڑن چھُو ہو چکا ہے۔
ایک طرف 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف پارلیمان میں اپوزیشن حکومت کے لیے مشکل وقت پیدا کر رہی ہے تو دوسری جانب سینیٹ سیٹوں کے لیے مِل کر جوڑ توڑ کر کے حکومتی نمبرز کم کرنے کی اچھی چال بھی چل رہی ہے۔ بالغرض سپریم کورٹ اگر سینیٹ الیکشن کے حوالے سے حکومت کی دریافت کردہ تشریح جاری بھی کر دیتی ہے تو بھی معاملہ پارلیمان کے حوالے ہی ہوگا جہاں ایوانِ بالا سے آئینی ترمیم اپوزیشن اپنی عددی اکثریت سے مسترد کر دے گی اور سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی سیٹوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال بڑھ جائے گا۔
سینیٹ الیکشن کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن الیکشن کے فوری بعد پی ڈی ایم 26 مارچ کو اپنا لانگ مارچ، جسے اب وہ مہنگائی مارچ کا نام دے چکی ہے، لے کر اسلام آباد کی طرف نکلے گی تو حکومت پر دباؤ مزید بڑھے گا۔
سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن اتحاد اگر حکومتی اراکین کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب کروانے کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔ ایسے میں ایک طرف لانگ مارچ اور دوسری طرف تحریکِ عدم اعتماد۔ اگر یکے بعد دیگرے یہ پتّے کھیلے جائیں تو نہ صرف وزیراعظم عمران خان پر پریشر بڑھے گا بلکہ حکومتی اراکینِ اسمبلی بھی شش و پنچ میں پڑ سکتے ہیں جس کا بروقت سیاسی فائدہ پی ڈی ایم اٹھا سکتی ہے۔
اس کا بڑا دارومدار سینیٹ الیکشن کے نتائج پر بھی منحصر ہے۔ دوسری جانب مصّدقہ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کے دو بڑے گھروں کے معاملات کچھ زیادہ تسلّی بخش نہیں رہے اور عنقریب ایک بڑی تبدیلی حکومت کے لیے معاملات کو مشکل بنا سکتی ہے۔ فی الحال تو وزیراعظم صاحب اس اہم تبدیلی کے حق میں نہیں لیکن اسلام آباد میں معاملات پر گہری نظریں ٹِکا کر رکھے ہوئے حلقے دو ممکنات کی آہٹ سن رہے ہیں: اوّل سینیٹ الیکشن سے پیش تر اور دوئم الیکشن سے موخر۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر دو صورتوں میں حکومت کے لیے معاملات مشکل ہو سکتے ہیں اور قرین قیاس یہی ہے کہ اپوزیشن کے پیشِ نظر بھی یہ اہم تبدیلی ہے جس کے مناسب سیاسی استعمال کے لیے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں کے لہجے اور بیانات اور رویے میں بھی لچک نمایاں ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے بیانات خاص کر کہ ہماری لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں اور نواز شریف کے بھی جارحانہ لہجے میں بظاہر نرمی ایک اچھی پیشرفت ہے۔
جلسے جلوسوں میں جارحانہ آغاز اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دُو بَدُو معرکہ آرائی سے لے کر اب لانگ مارچ کو محض ’مہنگائی مارچ‘ کا نام دیا جانا بھی پی ڈی ایم کی لچک دار اور مفاہمانہ سٹریٹیجی کا عکّاس ہے جس سے ایک تیر سے دو شکار کیے جا سکیں اور مارچ کو نہ صرف عوام بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی قابلِ قبول بنایا جا سکے۔
مہنگائی ہی ایک ایسا اِیشو ہے جس پر حکومت بیک فٹ پر چلی جاتی ہے وگرنہ دھاندلی، مینڈیٹ چوری، ووٹ کو عزت دینے کے نعروں پر ہونے والی تحریک پر خود اپوزیشن سوالات کی زد میں آجاتی ہے کہ ثبوت کہاں ہیں اور متعلقہ فورمز سے کب اور کہاں رجوع کیا گیا۔
لانگ مارچ یا مہنگائی مارچ میں اگر پی ڈی ایم عوام کی بڑی تعداد کو اکٹھے کرکے اسلام آباد لے آتی ہے تو یقینی طور پر حکومت دباؤ میں آ جائے گی۔ مولانا فضل الرحمان کا گذشتہ لانگ مارچ/ دھرنا تو ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ اچھی خاصی تعداد میں کارکنان اکٹھے کرکے اسلام آباد لا سکتے ہیں لیکن دھرنا ان کا (sustain) نہیں کر سکا تھا انتظامی اور اخراجات کی بنیاد پر۔
یہ لانگ مارچ/ دھرنا ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا اصل امتحان ہوگا کہ وہ کتنے کارکنان اکٹھے کرکے اپنے ساتھ لا سکتے ہیں اور کیا لانگ مارچ کو دھرنے کا رخ بھی دے سکتے ہیں یا نہیں کیونکہ 12 اپریل سے رمضان المبارک کا آغاز بھی ہو جائے گا۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو کے سیاسی کیریئر کا یہ پہلا باقاعدہ لانگ مارچ/ دھرنا ہوگا اسی لیے ان دونوں نوجوان لیڈرز کا یہ اصل اور کڑا امتحان بھی ہے اور توقعات بھی زیادہ انہی دونوں سے وابستہ ہیں۔
جب یہ رہنما لانگ مارچ کے لیے نکلیں گے تو پی ڈی ایم تحریک اپنے چھ ماہ مکمل کر چکی ہوگی (جو کسی بھی تحریک کی ابتدائی کامیابی کے لیے کافی ہوتے ہیں) اور یہ رہنما عمران خان کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے نکلیں گے، جو فریق جتنی زیادہ سکت، کریز پر ڈٹے رہنے کی صلاحیت، مستقل مزاجی، فوکس، جارحیت اور مفاہمت کا بروقت اور درست استعمال، ٹیم پَلے، تحمل اور وقت کا بھی صحیح استعمال کرے گا آخرِ کار وہی اِس گیم کا فاتح ٹھہرے گا۔