بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے بھی کوئٹہ میں اتوار کو ہونے والے جلسہ کے حوالے سے یہ کہہ کر حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو کوئٹہ میں اپنا تیسرا جلسہ کرنے سے روکنے کی ناکام کوشش کی کہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے اطلاع دی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان مذکورہ جلسہ میں دہشت گردانہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
دلوں کا راز تو خدا جانتا ہے لیکن بلوچستان حکومت کی اس سادگی سے ایک ہی بات واضح ہوئی کہ سیاسی ناتجربہ کاری کا یہ عالم ہے کہ انہیں ابھی تک سیاسی مخالفین کو ڈرانے کا موثر اور کارآمد تدبیر نہیں آتی۔ ایسی روایتی دھمکیوں سے حزب اختلاف کیوں ڈرتی؟ چنانچہ پی ڈی ایم نے حکومتی دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے طے شدہ شیڈول کے مطابق کوئٹہ میں ناصرف ایک بڑا جلسہ کیا بلکہ اس میں چند مقامات پر چند زبانیں پھسل بھی گئیں، سخت تقاریر ہوئیں جن پر چند حلقوں نے شدید اعتراض بھی کیا۔
معلوم نہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کیوں پی ڈی ایم کے جلسہ سے ڈر رہی تھی۔ بظاہر دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کا اصل جھگڑا پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ہے۔ اس اتحاد میں شامل بڑی قومی سیاسی جماعتوں کا غصہ بلوچستان حکومت کی طرف نہیں ہے۔
پی ڈی ایم دراصل بڑی سیاسی قوتوں کے درمیان جاری لمبی کشمکش کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور اس کا سب سے بڑا حریف یا ہدف بلوچستان حکومت ہے اور نا ہی وزیراعلیٰ جام کمال۔ لیکن جس ڈگر پر پی ڈی ایم چل رہی ہے اس کو دیکھ کر وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سیاسی اتحاد مزید کتنی دیر اور کہاں تک چلے گی۔
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کئی سیکولر جماعتیں ایک مذہبی جماعت کے سربراہ (مولانا فضل الرحمن) کی قیادت میں اکھٹی ہوئی ہیں۔ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہان پر کھلے عام یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو مبینہ طور پر ناجائز طریقے سے اقتدار میں لانے کے پیچھے ان ہی کا ہاتھ ہے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل (عاصم سلیم باجوہ) کے بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی کرپشن الزامات کی بنیاد پر مستعفی ہونے کے مطالبات سرعام سیاسی جلسوں میں ہو رہے ہیں۔ کچھ تو ان کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ سنگین الزامات کوئی جذباتی سیاسی کارکن یا سازشی تھیوری پر یقین رکھنے والا دانشور نہیں بلکہ خود تین مرتبہ منتخب ہونے والا ملک کا ایک سابق وزیر اعظم لگا رہا ہے۔
قومی رہنماوں کا دکھڑا
دھواں دار تقریریں اپنی جگہ لیکن کوئٹہ کے جلسہ سے یہ لگا جیسے کہ میاں نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر قومی رہنما اہلیان بلوچستان کا غم سننے کی بجائے اپنا دکھڑا لے کر کوئٹہ تشریف لائے تھے۔ اب جلسہ جلوس کوئی کھلی کچھری یا جرگہ تو ہے نہیں جہاں عام لوگوں کے گلے شکوے سننے جائیں۔ وہ تو محض اپنی بھڑاس نکالنے، دھمکی اور الٹی میٹم دینے کے لیے ہوتے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ کوئٹہ کا جلسہ کامیاب تھا یا ناکام، سوال یہ ہے کہ اس جلسہ کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا اوراس کا فائدہ یا نقصان کس کو ہوگا۔ چونکہ پی ٹی آئی کی بلوچستان میں حکومت یا خاطر خواہ وجود نہیں ہے تو صوبائی حکومت کو اس جلسہ سے بھی براہ راست کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا البتہ یہاں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی جیسی اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتیں کیوں اور کیسے اقتدار میں آتی ہیں اور یہ اپنے قیام کا جواز کیسے فراہم کرتی ہیں؟ یہ بات تو بار بار کہی جاتی ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے لیکن یہ ان کے اقتدار میں رہنے کی واحد وجہ نہیں ہے۔
یہ جماعتیں سابق حکومتوں کی ناکامیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور عوام کے سامنے ایک بات رکھ دیتی ہیں کہ مسلم لیگ، پی پی پی یا دیگر مذہبی اور قوم پرست جماعتیں کئی دہائیوں تک اقتدار میں تو رہیں لیکن انہوں نے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ بدعنوانی کے الزامات درست ہوں یا غلط یا ان کا مقصد سیاسی انتقام ہو، خود عوام کے لیے بھی بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ اپنی زبوں حالی کا ذمہ دار ’کرپٹ‘ اور ’چور‘ سیاست دانوں کو ٹھہرائیں۔
پی ٹی آئی اور باپ کی حکومت بھی اسی بیساکھی پر کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بات ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ہو یا سینسرشپ اور انتقامی کارروائی کی، وزیر اعظم صاحب کا جواب ایک ہی ہوتا ہے: این آر او نہیں دوں گا۔
یادِ ماضی
دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی تاریخ جتنی لمبی ہوگی اتنا ہی تاریخ اور ماضی کے واقعات ان ہی کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ اگر پچھلے 30 سالوں کی سیاست لیا جائے تو پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر نہیں رہی ہیں۔
کبھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ کسی حکومت میں اقتدار میں شریک رہی ہیں تو کبھی ایک دوسرے کے خلاف تحریکیں چلائیں، الزام تراشیاں کیں اور یوں ان کے مخالفیں ماضی میں ہونے والے واقعات کا حوالہ دے کر کئی تضادات کی طرف اشارہ کر کے حزب اختلاف کے بیانیے اور موقف کو کمزور کرتے ہیں۔ مثلاً بلوچستان کے ساتھ ہونے والے مظالم کی جب بھی بات ہوتی ہے تو نواب بگٹی کی جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے قتل کا حوالہ ضرور دیا جاتاہے۔
اب مولانا فضل الرحمان بگٹی کی ہلاکت کو کتنا ہی بڑا تاریخی جبر کیوں نا قرار دیں یہ بات اپنی جگہ پر تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ خود جمعیت علمائے اسلام اس وقت بلوچستان میں مشرف نواز پاکستان مسلم لیگ ق کی حکومت میں شامل تھی۔
اسی طرح یہ درست ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ بڑا سنگین ہے لیکن کئی لاپتہ افراد خود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دورِ حکومت ہی میں غائب ہوئے۔ جب ملک کی یہ دو بڑی جماعتیں حکومت میں تھیں تو ان کا بلوچستان کے حوالے سے لب و لہجہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا موجودہ حکومت کا ہے۔ جب یہ جماعتیں اقتدارمیں ہوتی ہیں تو وہ بھی وہی سرکاری بیانیہ دہراتی ہیں جو ہر حکومت ِوقت دہراتی ہے۔
سرکاری ٹاکنگ پوائنٹس ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ بلوچستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے اور پاکستان کی ترقی بلوچستان کی ترقی ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ بیرونی قوتوں کے ہاتھوں کھیلنے والے مٹھی بھر لوگ ہیں جنہیں حکومت بہت جلد کچل دے گی۔
پی پی پی کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے خضدار میں کہا تھا کہ لاپتہ افراد اپنی مرضی سے روپوش ہوگئے ہیں تاکہ ملکی ایجنسیوں کو بدنام کیا جائے جب کہ نواز لیگ کے وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے دور میں تو بلوچ رہنماؤں کی عورتوں تک کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے لایا گیا۔ زہری کا لب و لہجہ جنرل مشرف سے مختلف نہیں تھا بلکہ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ہم ’بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے بلوچستان کے مسئلہ کو سیاسی طریقے اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کے لیے کیا کیا ہے جس کو لے کر صوبے میں لوگ یہ باور کریں کہ اب ان کا مقصد بلوچستان کی مظلومیت کو محض اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنا نہیں ہے۔
کیا ان کے پاس بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے واقعی کوئی روڑ میپ موجود ہے؟ اگر ہاں تو فی الحال یہ نسخہ محض ایک راز یا معمہ ہی ہے جوعوام کی نظروں سے اوجھل اور سمجھ سے کوسوں دور ہے۔