پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ [پی ڈی ایم] کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ اس نے اپنے اہداف کی حوالے سے سیاسی توقعات کی غیر معمولی نشونما کی ہے۔ ان کے حالیہ بیانات اس اتحاد کے بارے میں یہ تصور بنا رہے ہیں کہ یا تو یہ بہت کچھ کر گزریں گے اور یا پھر ایسی منہ کی کھائیں گے کہ سر نہ اٹھا پائیں گے۔
پی ڈی ایم کا اس سے بھی بڑا مسئلہ اس تاریخ کے خلاف اڑان ہے جس میں سے اس اتحاد میں موجود تمام جماعتیں گزر کر آئی ہیں۔ پاکستان کی 72 سالہ سیاسی تاریخ میں عوامی تحاریک تو بہت سی ہیں لیکن عوامی تحریک کے نتیجے میں حقیقی تبدیلی کی کوئی مثال موجود نہیں۔
مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی تحریک ملک کے دو لخت ہو جانے کے بعد ہی معتبر ہوئی۔ علیحدگی پسند صوبائی کاوشیں تمام تر خون خرابے کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ 1971 سے لے کر 2021 تک کوئی ایک مثال ایسی نہیں جس میں حکومت کو عوام کے زور سے نکال باہر کیا ہو۔
لیکن ایسے احتجاجوں کی قطار لگی ہے جو اندر خانے جوڑ توڑ کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف حزب اختلاف کو مکمل طور پر اس وقت کی فوجی قیادت کا سہارا تھا۔ ضیا الحق کے خلاف چلنے والی تحریک کے بعض بڑے سیاسی گھوڑے روزانہ جی ایچ کیو سے رابطہ کیا کرتے تھے۔
عمران خان کے دھرنے کی مبینہ منصوبہ بندی اس وقت طاقت کے پاشائوں نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی۔ طاہر القادری کے ٹکٹ کے پیسے، جی ٹی روڑ پر اس کے حق میں لکھے جانے والے نعرے، پوسٹرز اور اسلام آباد میں پڑاؤ کا خرچہ اس مفصل آفس ورک کا نتیجہ تھا جو سڑکوں سے بہت دور ٹھنڈے کمروں میں آرام سے بیٹھ کے کیا گیا تھا۔
مذہبی اور دینی جماعتوں کو متنازعہ معاملات پر راہ دیکھا کر خوش آمدید کہنا عوام کی منشا کی داستان نہیں بلکہ نہ ختم ہونے والی محلاتی سازشوں سے بنے ہوئے واقعات ہیں۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے لیے ماحول کو اندر سے سازگار بنایا گیا تھا۔
ان تمام امور میں احتجاجی شرکت اور کارکنان کا جوش و خروش نقلی نہیں تھا۔ مگر اس جوش کو استعمال کرنے کا عمل یا اس کے ذریعے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی شراکت داری سے طے پائی۔
پی ڈی ایم کا موجودہ بیانیہ یہ ہے کہ وہ تاریخ کی اس پلاننگ کے برعکس اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کیے بغیر ایک ایسی حکومت کو نکال باہر کرے گی جو پچھلے اڑھائی سالوں میں اپنے ہاتھ سے اپنی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے باوجود آرام سے کھڑی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ دعوی یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ عمران حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کی موجودہ پالیسی کو تبدیل کر کے ایسے نئے انتخابات کروائے جو 2018 کے انتخابات کی تمام آلائشوں سے پاک ہوں۔
فی الحال یہ سب خیالی پلاؤ لگتا ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ جنرل قمر باجوہ عمران خان کا ہاتھ چھوڑ کر پی ڈی ایم کی طرف اپنے جھکاؤ کا واضح اظہار کیوں کریں گے؟ بطور فوجی سپہ سالار ان کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔ ان کو میاں محمد نواز شریف نے ان سے زیادہ سینیئر امیدواروں کی لسٹ میں سے چُن کر یہ عہدہ دیا۔ پھر تمام جماعتوں نے مل کر ان کو تین سال کی توسیع دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے کیریئر میں جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا ہے۔ موجودہ حکومت ان کو کسی قسم کا طعنہ یا چلینج نہیں دیتی۔ ان کی ہر بات مانتی ہے۔ کوئی فائل ایسی نہیں جو پنڈی سے آتی ہو اور بنی گالہ سے سرخرو ہو کر نہ جاتی ہو۔ جنرل قمر باجوہ چاہیں گے کہ وہ کسی سیاسی فساد میں پڑے بغیر اپنی توسیع شدہ مدت پوری کریں اور اگر عمران خان اس ہدف میں رکاوٹ نہیں ہیں تو وہ بھی یوں ہی کام کرتے رہیں۔
جنرل باجوہ کے بعد بننے والے فوجی سربراہ پر اس وقت بات کرنا یقینا قبل ازوقت لگتا ہو گا۔ مگر اندرونی طور پر ایسے عہدوں کے لیے تیاریاں اور لابنگ کافی پہلے شروع ہو جاتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس لابنگ کا حصہ بن کر جنرل قمر باجوہ کے بعد کے امیدواروں کو بھی اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ یعنی حال تو درست ہے ہی مستقبل میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے۔
ان تمام معاملات میں سے کسی پر بھی پی ڈی ایم کی جماعتوں کا کوئی اثرورسوخ نہیں۔ ملک میں ہونے والی فیصلہ سازی میں ان کو کوئی لفٹ نہیں کراتا۔ ویڈیوز میں آپ کو عمران خان، جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔
کبھی کبھار نظریہ وقتی ضرورت کے تحت یعنی ایکسٹینشن یا ایف اے ٹی ایف پر قانون سازی یا سینیٹ میں اوپن ووٹنگ وغیرہ پر رابطے ہو جاتے ہیں۔ مگر اس سے زیادہ پی ڈی ایم کی پہنچ پاکستان کی مستقل صاحب اقتدار قوتوں تک نہیں ہے۔ عمران خان کو ہٹانے کا کوئی محرک ایسا نہیں جہاں پر اسٹیبلشمنٹ کی کوئی دلچسپی یا ان کا کوئی حقیقی مفاد واضح ہو۔
ان حالات کو تبدیل کرنے کے لیے پی ڈی ایم کے پاس سڑک کو گرم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ مگر یہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے۔ سڑک کو ٹھنڈا کرنے والی قوتیں گرم کرنے والی قوتوں سے زیادہ مالدار ہیں۔ اور پھر کتنی گرمی کافی ہو گی؟ دھرنا؟ وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھائی؟ بڑے شہروں میں لڑائی؟ دنگا فساد؟ کیا احتجاج کو خون سے سینچا جائے گا؟
اور اگر یہ ہوا تو پھر کیا ضمانت ہے کہ پی ڈی ایم کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا اتحاد مزید گہرا نہیں ہوگا؟ پی ڈی ایم فی الحال عمران حکومت کے لیے ایک سیاسی چیلنج ضرور ہے مگر اس میں وہ تاثیر کون لائے گا جس کے سامنے ہماری سیاسی تاریخ بے بس نظر آئے اور اسٹیبلشمنٹ وہ کرنے پر مجبور ہو جائے جو وہ کرنا نہیں چاہتی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔