پچھلے کچھ دنوں سے جس طرح سینیٹ الیکشن میں تول کے مول سیاستدانوں کے بکنے کا چرچا پورے ملک میں ہر شخص کی زبان پر ہے، سچ پوچھیں تو حقیقت تو یہ ہے کہ جسے سینیٹ الیکشن کے مرحلہ وار اور سلسلہ وار انتخابی عمل اور ہر تین سال بعد کتنی سیٹیں خالی ہوتی ہیں، ایک سینیٹر کے انتخاب کے لیے کتنے ووٹ درکار ہوتے ہیں، سینیٹرز کی کیٹیگریز کیا کیا ہیں انتخابی عمل تکمیل تک کیسے اور کن مراحل کے ذریعے پہنچتا ہے ان سب پارلیمانی و انتخابی پیچیدگیوں کا نہ بھی علم ہو لیکن اتنا کامل ایمان ضرور ہو گیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات بکتے ہیں ووٹ کے بدلے نوٹ چلتے ہیں اور بھرپور چلتے ہیں۔
آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن بہرحال اس بات کا کریڈٹ ضرور تحریک انصاف کو جائے گا کہ پاکستان کی سیاست اور سینیٹ انتخابی عمل میں پہلی بار ایک ملک گیر اور بھرپور آگہی سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے چل پڑی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس سے قبل ادراک موجود نہیں تھا...... یقیناً تھا اور یہی وجہ تھی کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں نے انفرادی و اجتماعی کوششیں بھی کیں کہ ہارس ٹریڈنگ کی لعنت کا خاتمہ بھی ہو سکے جو بوجوہ نہ ہو سکا لیکن جو موجودہ لہر ملک میں آگہی کی چل نکلی ہے ظاہر ہے اس میں ایک بڑا کردار وسیع تر میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں جتنی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور جو آج تک سینیٹ کی حصّہ دار رہی ہیں وہ سب کسی نہ کسی صورت میں ہارس ٹریڈنگ ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث رہی ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان تحریک انصاف بھی اس الزام سے مبّرا نہیں۔
تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں 20 ایم پی ایز کو نکالنے کا کریڈیٹ تو دھوم دھام سے لیتی ہے مگر پنجاب میں چوہدری سرور کے ووٹوں کی گنتی پر دَم سادھ لیتی ہے۔
یہ بھی آن ریکارڈ حقیقت ہے کہ اس بارے میں جب عمران خان صاحب سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا یہ ہارس ٹریڈنگ نہیں تو انہوں نے گول مول جواب دیتے ہوئے ان اضافی ووٹوں کو حلال قرار دیا تھا لیکن بہرحال ایک ہاتھ سے ملاوٹ دوسرے سے نماز کی نیت کے مصداق کم از کم پی ٹی آئی کوشش تو کر رہی ہے کہ ملک میں سینیٹ انتخابات کی ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہو سکے چاہے اس کی نیت میں کھوٹ یا سیاسی مفاد ہی پنہاں کیوں نہ ہو۔
خدا لگتی کہیں تو ملک میں ہوئی بہت سی قانون سازی میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کا سیاسی مفاد شامل حال ضرور رہا ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست چونکہ کان بھی پکڑتی ہے اور پہلے الٹے ہاتھ سے پھر سیدھے ہاتھ سے...... سو سینیٹ الیکشن کے معاملے پر بھی یہی کر رہی ہے۔
پہلے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس، پھر پارلیمان، پھر صدارتی آرڈیننس اور آخر میں معاملہ پھر پارلیمان کے پاس ہی آنا ہے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سنجیدگی کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو انگیج کیا جاتا اور ایک وسیع البنیاد اور وسیع المقصد الیکشن اصلاحاتی پیکج پر پارلیمان کو مُوو (move) کیا جاتا حکومت بھی فائدے میں رہتی اور اپوزیشن بھی۔
لیکن اب چونکہ پی ٹی آئی نے تمام اپوزیشن جماعتوں سے خدا واسطے کا بَیر پال رکھا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ دو (As) کی مدد ہی اس کا ہر بیڑا پار لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو الیکشن اصلاحات پر مذاکرات کا چیپٹر بھی طویل مدت تک کے لیے بند ہی سمجھا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب میں بالخصوص اور خیبرپختونخوا میں بالعموم جس طرح تحریک انصاف کے (یا اس سے وابستہ) ایم پی ایز کے حالات گواہی دے رہے ہیں تو حکومتی جماعت کے لیے کافی مشکلات موجود ہیں۔
فی الحال تو آثار اسی بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ سینیٹ الیکشن شاید ہی اوپن بیلٹ سے ہو سکیں۔ سو ایسے میں موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے (Predict) کیا جا سکتا ہے کہ سب سے زیادہ پیسہ لگانے والی جماعت آخرِ کار خود تحریک انصاف ہی کھل کر سامنے آ جائے۔
اب جو کمیٹی بنائی گئی ہے لیک ہونے والی (بلکہ لیک کروائی گئی) ویڈیو کی تحقیقات کے لیے جس میں ویڈیو لیک کروانے والی شخصیت بھی بقول شخصے شامل ہے...... کمیٹی کے تینوں ممبران فواد چوہدری، شیریں مزاری، بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر، انتہائی قابلِ احترام اور اچھی شہرت کے حامل ہیں لیکن اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ معاملہ تحقیقات کے لیے پارلیمان کے سپرد کیا جاتا اور تحقیقاتی ادارے پابند ہوتے کہ پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن کی معاونت کریں۔
حکومت پر الزام اور حکومت ہی تحقیقات کرے یہ بڑا عجیب سا انصاف معلوم ہوتا ہے۔
لیکن بہر حال ان تینوں معزز ممبران سے امید رکھتے ہیں کہ صاف شفاف تحقیقات جلد از جلد مکمل ہوں اور فرانزک آڈٹ کے ساتھ ذمہ داران کو سزا بھی ممکن ہو سکے۔
ساتھ ہی ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کے حل سے متعلق بھی سوچنا ہوگا۔ فی الحال تو بات چونکہ تحریک انصاف کی ٹائمنگ کی ہے لہذا اپوزیشن جماعتیں بیٹھ کر بات کرنا تو دشوار بات سننا تک گوارا نہیں کر رہیں لیکن..... ہمیں یقین ہے کہ رستہ یہیں سے نکلے گا...... آخر کو مسئلہ پارلیمان کا ہے اور اسے حل بھی پارلیمان نے ہی کرنا ہے وگرنہ افسوناک ہوگا کہ اس ملک میں ہمیشہ سے سیاستدان ہی گندے اور ننگے ہوتے آئے ہیں اور اگر یہاں پر فل سٹاپ نہ لگایا گیا تو اس سینیٹ الیکشن کے بعد گند مزید اچھل کر اور ابل کر باہر آئے گا۔