یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
مارچ میں پی ڈی ایم مارچ ہو گا اور کراچی میں گنتی کے چند ن لیگیوں میں سے ایک چچا گیرو بیگ باندھے بیٹھے ہیں۔
میں نے کہا، ’چچا کہاں کا ارادہ کر لیا وہاں تو مدرسے کے جوان لڑکے ہوں گے، صحت مند ن لیگی کارکن۔ آپ کہاں یہ منحنی سی جان لے کر نعرے ماریں گے؟‘
میں نے بڑا ڈرایا دھمکایا کہ ’جناب بڑے ڈنڈے پڑیں گے، پھر اس عمر میں کہاں انقلاب لانے نکل پڑے؟‘
کہنے لگے، ’اسٹیبمشمنٹ کی خزاں کو ہمیشہ کے لیے مرجھایا ہوا دیکھنے جا رہا ہوں۔ شاہراہ جمہوریت پر جمہور کی بہار دیکھنے جا رہا ہوں۔ اور اگر واقعی اس بار بھی جمہوریت کی بہار پر اسٹیبلشمنٹ کے مالی پانی دے رہے ہیں تو وہ بھی دیکھ لیں گے۔‘
میری ہنسی نکل گئی۔ میں نے چچا کو بتایا کہ ’ایک ماہ میں دوسری بار ہماری لائق صد احترام فوج نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔‘
کچھ کچھ پوپلے منہ سے پورا زور لگا کر اترانے، اٹھلانے کی باری چچا گیرو کی تھی۔ کہنے لگے، ’اری بی بی، یہ میں کیا سن رہا ہوں، یہ شان بے نیازی، یہ بے رخی کہاں سے سیکھی؟ ایسے بیچ رستے پہ چھوڑ کر بھلا کون جاتا ہے بھلا؟ پاکستانی سیاست میں پاک فوج اب ایک عادت کا نام ہے، عادتیں کہاں آسانی سے بدلتی ہیں۔‘
’شاید فوج بھی سیاسی ٹریفک کو اشارے دے دے کر تھک گئی ہو گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر تو کہہ گئے ہیں کہ پاک فوج پہلے ہی بڑی مصروف ہے۔ اس کے پاس ایسی ویسی باتوں کا وقت نہیں۔‘ میں نے ہر حد تک معصومیت کا سوانگ رچا۔
چچا گیرو کو بس تیلی لگانے کی دیر ہے پھر دیکھیں 73 برس کے سارے فتنے ایک سانس میں لپیٹ دیتے ہیں۔ میری بات پوری بھی نہیں ہونے دی اور نان سٹاپ شروع ہو گئے، ’اقتدار کا نشہ بڑا طاقت ور ہوتا ہے، یہ ساری قوم کی قسمت حکمران کی ہتھیلی پہ لاکر رکھ دیتا ہے۔ نشہ جسے منہ لگے اب 74 برس ہونے والے ہیں کیسے چھوٹے گی یہ بری لت؟‘
لیکن میں مثبت رپورٹنگ والوں کی طرح پرامید تھی کہ کونے کھدرے سے کوئی نہ کوئی سیدھا راستہ نکل ہی آئے گا۔
میں نے چچا گیرو کو پھر یاد دلایا، ’کیا ڈی جی صاحب کا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ پاک فوج سیاسی معاملات میں کسی قسم کے بیک ڈور رابطے نہیں کر رہی؟ ہماری فوج کے پاس داخلی وخارجی سلامتی کے بڑے فرائض ہیں جنہیں وہ بخوبی پورا کر رہے ہیں۔‘
چچا نے پھر مجھے یادداشت کی پٹاری سے نکال نکال کر ہماری جمہوری اور سیاسی تاریخ میں فوجی مداخلت کی وہ وہ شاہکار کہانیاں گنوانا شروع کیں کہ الامان الحفیظ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہاں بھئی جنرل اسکندر مرزا کس ڈیوٹی پر تھے؟ کیا آئین کی معطلی کا عظیم پراجیکٹ جس کے روح و رواں وہ خود تھے ملکی مفاد میں تھا؟ انہیں کس نے سیاست میں گھسیٹا تھا؟ اچھا تو ایوب خان فیلڈ مارشل تھے نا۔ انہیں کس قوت نے ہاتھ پاؤں باندھ کر مجبور کیا تھا کہ برسوں آئین معطل کا معطل ہی رہے؟
’کیا یحییٰ خان کی نشے میں ڈوبی راتیں بھی ملک چلانے کی بھاری ذمہ داریوں میں سے ایک تھیں؟ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب آدھا پاکستان بدترین سیاسی اور دفاعی پالیسیز کے ہاتھوں ٹوٹ چکا تھا۔
’وہ کون کم بخت تھا جس نے جنرل ضیاء الحق کے آگے ہاتھ جوڑے تھے کہ محترم زمام اقتدار سنبھالیے، فوج آپ کے تابع ہے، آپ مرد ِمومن، صف اول کے مجاہد، خدا کے نائب ہیں اب اس کی دی ہوئی سلطنت بھی سنبھالیں۔
’اور کچھ نہیں تو صرف ایک اصغر خان کیس ہی اٹھالیں۔ کیا جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف اسد درانی نے ملک کی وسیع تر مفاد میں سیاست دان خریدے تھے؟ 1990 کے عام انتخابات سے قبل سیاست دانوں میں رقوم کے بریف کیس بانٹنے کی مشقت بھی کیا ان سے زبردستی کروائی گئی؟
’کہتے ہیں جنرل پرویز مشرف کو اقتدار کی کرسی تک کھینچ کر نواز شریف کی سیاسی امیچورٹی لائی۔ چلو مان لیا کہ لے آئی۔ پھر اگلے دس برس تک ایک جنرل کو کون مجبور کرتا رہا اور زبردستی سیاست میں گھسیٹتا رہا کہ وہ خدائی خدمت گار بن کر پاکستانی سیاست کو میچور کرتے رہیں؟‘
پھر چچا گیرو نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی نہایت باریک سیاسی وارداتوں پر لب کشائی فرمائی۔ ہم بات عام موبائل نمبر پر کر رہے تھے اور چچا گیرو کے تبصرے جنرل شجاع پاشا سے ہوتے ہوئے مزید حسب حال ہوتے جا رہے تھے۔
اس سے قبل کہ چچا گیرو اسلام آباد پہنچنے سے پہلے شمالی علاقہ جات پہنچا دیے جاتے، میں نے ٹوکا اور یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ ’چچا، ڈی جی صاحب نے کہہ دیا ہے کہ فوج کے سیاسی کردار پر بغیر شواہد قیاس آرائیاں بند کریں۔ اگر کوئی ثبوت ہے تو سامنے لے آئیں۔‘
چچا گیرو بیچارے اتنے لمبے لیکچر کے باوجود آخر میں منمناتے رہ گئے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔