ہم نے گذشتہ ہفتے اپنے ہاتھوں، مکوں اور جوتوں سے نئی تاریخ رقم کی۔ سابق وزیر اعظم، سابق وزیر داخلہ، سینیٹر، ممبر قومی اسمبلی[خاتون] کا گھیراؤ کر کے دھکم پیل، گالم گلوچ، مار پیٹ اور حملے سے ایسے باب کا آغاز کر دیا ہے جو اس سے پہلے اس پیمانے پر نظر سے نہیں گزرا۔
باوجود اس کے کہ حملہ آوروں کی کارروائی فلم بند ہوئی، موبائل اور ٹی وی کیمروں نے اپنی آنکھوں سے اس چوپٹ راج کو پھیلتے ہوئے دیکھا مگر کسی نے حکومتی بینچوں میں سے اس پر افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ یہ کہا گیا کہ یہ پارلیمینٹیرئنز ہمارے ورکروں کے درمیان کرنے کیا گئے تھے؟
یاد رہے کہ یہ ریڈ زون تھا۔ جہاں پر ہر خاص و عام کو اجازت کے بغیر داخلہ نہیں ملتا۔ ان کارکنان کو ایک رات پہلے باقاعدہ دعوت کے ذریعے بلوایا گیا تھا۔ ان ضلعوں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی جہاں سے ان کو اکٹھا کیا جانا تھا۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس ریڈ زون کی حکمران جماعت اور اس کے کارکنان سے خاص نسبت ہے۔ جب یہاں پر دہشت گردی کے بدترین خدشات گردش کر رہے تھے تو 126 دنوں کا احتجاج منعقد ہوا۔ ہر روز ایک پارٹی تھی۔ ان کی گاڑیاں تھیں اور وہ خود تھے۔ یہاں سے پارلیمان پر حملہ ہوا، ادھر سے ہی پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت پر ہجوم نے قبضہ کیا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں سے ججوں اور سفارت کاروں سمیت ہر کسی کے لیے آمدورفت بند کر دی گئی۔
ذاتی چیک پوسٹیں لگائی گئیں اور پولیس افسران کو روئی کی طرح دھنا گیا۔ یہ سب آئین اور قانون کی بدترین پامالی تھی جو ایک خصوصی این او سی [اعتراض معاف سرٹیفکیٹ] کے تحت کی گئی۔
اسی جگہ پر اب اپوزیشن کے چار بندے مار کھائے بغیر پریس کانفرنس نہیں کر سکتے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ان چاروں نے اپنی جگہ نہیں چھوڑی اور اس ہجوم کو تتر بتر ہونا پڑا۔ مگر جیسے پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور سینیٹر مصدق ملک کی انتظامی غیرت جگانے کی کوششیں ناکام ہوئیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ازخود نہیں ہو گیا۔
اس افسوس ناک باب کا عنوان اور ابتدائی پیرے تحریر کرنے والوں نے شاید یہ نہیں سوچا کہ اس کی اگلی سطریں ان کے بارے میں لکھی جائیں گیں۔ جوتے سب کے پاؤں میں موجود ہیں۔ سر ہر ایک گردن پر رکھا ہے۔ گالی سب کو دینی آتی ہے۔ تھپڑ، مکے، لاتیں سب چلا لیتے ہیں۔
حکومتی اراکین اپنے مخالفین کے کارکنان کے غصے سے خود کو کیسے محفوظ کریں گے؟ وہ خواتین اراکین کی چادریں کیسے بچائیں گے؟ وہ غلیظ گالیوں کے آگے بند کیسے باندھیں گے؟ اب تو گٹر ابلنے لگے ہیں۔ پتھر پھینکنے والے کے منہ پر چھینٹیں نہ پڑیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
مگر حملہ آوروں کو مورد الزام ٹھہرانا یکسر غلط ہو گا۔ ان کا کیا قصور؟ نہ ان کے پاس نوکریاں ہیں، نہ کام کاج۔ گھروں میں ہر وقت بلوں، کھانے اور زندگی گزارنے کی تکالیف کا ذکر سن سن کر تنگ آئے ہوئے ہیں۔
ان کی حالت پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کے جوانوں کی سی ہے۔ جنہوں نے معاشی تنگ دستی اور زندگی کے ہاتھوں مسلسل بے عزت ہونے کے ردعمل میں ہٹلر کو سلام کرنا شروع کیا۔ اس فسطائی لیڈر نے ان کے غصے کو اپنی سیاست کے تابع کیا اور پھر ان کو اپنے مخالفین کے خلاف مختلف تنظیموں کے ذریعے صف بند کر دیا۔
ہٹلر کے نعرے ان کے دلوں کو لبھاتے تھے۔ وہ کہتا تھا کہ جرمنی میں اس کی جماعت کے علاوہ باقی سب غدار اور ننگ قوم ہیں۔ وہ ان کو بتاتا تھا کہ ان کی تمام تر اذیتیں ماضی کی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ وہ چند جملوں میں ان کو دنیا کی تاریخ پڑھاتا تھا۔ کہتا تھا جرمنی دنیا پر راج کرے گا اور ماضی کی عظمتیں واپس آئیں گی جب اس کو ایسی طاقت ملے گی جو کسی بھی آئینی قدغن اور قانون سے بالا ہو، جب جرمنی میں صرف وہ ہو اور اس کے علاوہ کوئی نہ ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہٹلر اپنے تمام تر مظالم اور ذہنی مسائل کے باوجود اس حد تک کامیاب رہا کہ اس نے اپنے ملک کو ساری دنیا سے لڑانے کے قابل کر دیا۔ مگر اس کا بویا ہوا کڑوا پھل جرمنی کو ایک ایسے خطرناک اندرونی سانحے میں پھنسا گیا کہ جس کے اثرات سے قوم ابھی تک باہر نہیں نکلی۔
ہم پاکستان کے موجودہ حالات اور ہٹلر کی مثال میں کوئی مماثلت تلاش نہیں کر رہے لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ گمراہ کیے ہوئے جوان اپنی نسل کو بگاڑنے کے مترادف ہے جس کا خمیازہ قومیں دہائیوں تک بھگتی رہتی ہیں۔
پارلیمنٹ سے باہر مچنے والے طوفان بدتمیزی اور پارلیمنٹ کے اندر مخالفین پر لعن طعن اور الزام تراشیوں کی گونج ایک سی محسوس ہو رہی تھی۔ اندر ان کو ڈاکو کہا جا رہا تھا، باہر چور۔ اندر ان کو نہ چھوڑنے کے عہد کی تجدید کی جا رہی تھی اور باہر گھونسوں، لاتوں اور جوتوں سے اس ارادے کا عملی مظاہرہ ہو رہا تھا۔ اندر نعتیں پڑھی جا رہی تھیں اور باہر حملہ آور ریاست مدینہ کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔
وہ تمام بیانیہ جو سیاسی مقاصد کے لیے بے لاگ انداز سے استعمال کیا گیا اب اس ملک کے ایک بڑے حصے کے ذہن میں گھر کر چکا ہے۔ ہم نے اس قسم کے واقعات کروانے کے لیے جو سیاسی بندوبست کیا ہے وہ ابھی بھی جاری و ساری ہے۔ اس سے پہلے برطانیہ میں اپنے مخالفین کے گھروں کے دروازوں کے سامنے ہجوم کو اکٹھا کر کے ہنگامے کروائے گئے۔ ڈنڈوں سے دہلیز پار کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر چونکہ برطانیہ کے سخت قوانین کے تحت یہ سب کچھ کرنا ممکن نہ رہا لہذا اب ہم نے اپنی سرزمین پر یہ بندوبست کر لیے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ حملے اب دوسری طرف سے بھی ہوں گے۔
ضروری نہیں کہ ردعمل فوری ہو [ہماری دعا ہے کہ برے عمل کے ردعمل کا سلسلہ کبھی شروع نہ ہو] اور نہ ہی پی ڈی ایم کی جماعتوں کا اس ماحول سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل مستقبل کے واقعات کی وجہ بن سکتا ہے۔
غصہ، نفرت اور انتقام ازخود اپنا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ کل کو جب پولیس اور کمانڈوز کے حصار نہیں ہوں گے، جب دوست منہ پھیر لیں گے تب اپوزیشن پر حملے کروانے والے اپنی حفاظت کا کیا بندوبست کریں گے؟ جوتے سب پہنتے ہیں، سر ہر گردن پر ٹکا ہوا ہے۔