جیب میں تو ہمارے بھی دانے نہیں مگر بُھنانے اور جلی کٹی بکھاننے کا ہنر ہی ایک کل سرمایہ ہے سو وہی لٹائے دیتے ہیں۔ آج موضوع سخن وہ کروڑوں زبانیں ہیں جنہیں دس بارہ ہزار سے اوپر گنتی نہیں آتی مگر یہ سیاست پر اپنی سے ہانک ہانک کر تھکے جاتی ہیں۔
یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
پچھلے ایک ماہ میں پاکستانی سیاست میں جتنے پیسوں کا ذکر رہا اتنی بڑی رقم یا تو بھارت کے سٹار پلس ڈراموں میں دکھائی جاتی تھی یا پھر ہالی وڈ فلموں میں۔ خیبرپختونخوا میں بھی ارب پتیوں کی دوڑ تھی یہ قسطوں میں فریج خریدنے والے عوام بھلا ایسے ماحول کے کہاں عادی ہیں۔
رہنماؤں کے لیے ٹوئٹر ٹرینڈز بنانے والے بھی یقیناً اپنی پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر گالیاں بکنے کی نوکری سے فارغ ہوتے ہوں گے تو مرغی ٹماٹر کے دام دیکھتے تو ہوں گے۔
خان کے چاہنے والے جب رات کو آنکھیں بند کرتے ہوں گے تو ایک لمحے کو یہ خیال تو گزرتا ہوگا کہ بنی گالہ کے بنگلے سے نیچے رہنے والی عوام کا نظارہ کیسا لگتا ہوگا۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ کاش کپتان کا کھلاڑی علیم خان اپنی ملٹی ملین ہاؤسنگ سوسائٹی میں کہیں ایک کوٹھڑی ہی دان دے۔ جہانگیر ترین جہاز کی کھڑکی سے گھر گھر راشن کے تھیلے پھینکنے نکل جائے۔
پی پی کےعمر رسیدہ جیالے کو بھی تو شوق اٹھتا ہوگا کہ بی بی کی بیٹی کی طرح اس کی بٹیا بھی بیاہی جائے، اس کی بیگم بھی شرمیلا فاروقی کی طرح سینکڑوں گز پھیلے بنگلے کے امپورٹڈ کچن میں کھڑی ہو کر ریڈ سنائیپر فش کا چکن فلے بناسکے۔
مریم نواز کا سٹائل تو قابل ستائش ہے۔ ان کی دیوانی کارکن درزی کو تصویر دے کر مریم جیسا جوڑا تو سلوا ہی لے گی لیکن لاکھ دو لاکھ روپوں کا سینڈریلا والا جوتا، یہ دیوانی سر بھی جھکا لے تو کوئی مارنے والا نہیں۔
یہ مڈل کلاس پاکستانی ووٹرز اپنے دونوں گردے بھی بیچ دیں تو شاہ زین بگٹی کی گاڑی کے شیشے تک نہیں خرید سکتے۔ اور وہ فیصل واوڈا کی چمچماتی گاڑیوں کے لشکارے، کہاں عوام کے روز کے دھکوں سے جلی رنگت والے چہرے۔
ہنسی نہیں آتی تم فاقہ مستوں کو اپنے حال پر کہ جس سینیٹ الیکشن کی نمبر گیم میں ارب پتی کھیل رہے تھے یہ وہاں بکی بن کر تکے ایسے لگا رہے تھے جیسے وہ گھوڑے میدان میں ان کے نام سے اترے ہوں۔
سمجھتے کیوں نہیں کہ سیاسی کارکنوں اور ووٹرز کے لیے کارنر میٹنگز ہوتی ہیں، جلسے بھی گاہے بگاہے تمھاری خاطر سجائے جاتے ہیں وہاں جا کر تالی پیٹنا کیا کم تفریح ہے؟
اور وہ جو قوم کے لیڈر آئے روز خطاب فرماتے ہیں وہ احسان عظیم یہ کس کھاتے میں جائے گا بھلا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذرا سوچو جہاں بلوچستان سے منتخب سینیٹر عبدالقادر جیسے رئیس یہ بڑی چمکتی کالی لینڈ کروزر میں بیٹھ کر تحریک انصاف کا رومال گلے میں ڈالنے پہنچے وہاں تمھاری پھٹپھٹی کو اندر گھسنے کون دے گا؟
اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے اور ویسے بھی تم کرائے پر رہنے والی عوام کے پاس عزت کے سوا ہے بھی کیا۔ تم خود ہی اپنی ٹوٹی چپل کے بدنما ربڑ سے جھانکتے گرد آلود پاوں دیکھو۔ کیا ہو اس قابل کہ اقتدار کے مقدس ایوان کے کسی کونے کھدرے میں ہی بیٹھ سکو؟
ریاست ہم تم جیسوں کو بھی آزما کے دیکھ چکی۔ یاد ہے کراچی میں مڈل کلاس والے پڑھے لکھوں کو اقتدار کا موقع ملا تھا، دیکھا تو ہوگا کیسے آپے سے باہر ہوئے یہاں تک کے تین تیرہ ہوگئے۔ عجیب لوگ تھے کہ ملی تو پی نہیں گئی اور پی لی تو پچا نہ سکے۔
خیر انہیں چھوڑو، اپنے جیسے درمیانے طبقے والوں کو اتنی اہمیت دینی بھی نہیں چاہیے۔ کروڑوں کی سیاست میں خالی جیب والے اپنی سکے ہی ٹٹولتے رہ جاتے ہیں۔ جماعت والوں کو تو دیکھ ہی رہے ہو نا؟
سیاست پیشہ ہے رئیس ابن رئیس ابن رئیس کا۔ اس کی باریکیوں میں جانا ہم تم جیسے ککھ پتیوں کے بس میں نہیں۔ ہم سے کہاں ہوگا کہ ان کے خاندانی مال، بچوں کی طلسماتی قابلیت سے بنے محلات، تحفے میں ملی جائیدادوں اور گاڑیوں کا حساب لگائیں۔
حلال ذرائع سے پیسہ کمانا غلط نہیں، امیر ہونا جرم نہیں، سارے خاندانی رئیس بھی لٹیرے نہیں ہوتے۔ مگر اس دولت کے بل بوتے پر سیاست کرنا، پھر اسی مال کے زور پر اقتدار میں آنا اور پھر حکمران بن کر اپنے پہلے سے بھرے ہوئے خزانے بھرنا اصل گیم یہ ہے جو بےحساب ہے۔
خیر حساب تو ہم اس فضل ربی کا بھی نہیں لگا سکتے جو پڑھے لکھے محنتی متوسط طبقےسے نکلے جج جنرل یا بیوروکریٹ پر ہوتا ہے۔ ان کی اکثریت بھی ملین روپیز کلب کا حصہ دیر سویر بن ہی جاتی ہے۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ ان کے شجروں میں بھی سسرال اور ننھیال سے ملا کلو کلو بھر سونا اور ددھیال سے ورثے میں ملی سینکڑوں ایکڑ زمینیں نکل آتی ہیں۔
یہاں ہماری سیاست میں سٹیل ملز، شوگر ملز، رئیل اسٹیٹ ٹائیکون، بینک کے مالک اور کمپنیوں کے سی ای او کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہ ماہانہ تنخواہ پر خوار ہونے والے کس بےشرمی سے اچھل رہے ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلا پیسہ چلا۔
بھائی تم تنخواہ دار بندے ہو یا دیہاڑی دار مزدور، تم یا تو غریب ہو یا پھر وہ مڈل کلاسیا جسے جلد ہی اس طبقاتی تنزلی کا مزہ چکھنا ہے۔ اس لیے جتنا جلدی ہوسکے اپنی اوقات کو پہچانو کیوں جل کڑھ رہے ہو؟
تم جلسہ گاہوں میں اچھلنے کودنے اور لاوڈ سپیکر سے نکلنے والی بےہنگم آوازوں پر تالی مارنے کے لیے بنے ہو۔ وہی جاری رکھو، یہ کروڑوں اربوں کا کاروبار سیاست انہی پر کیوں نہیں چھوڑ دیتے جن کے پاس اتنے ہیں۔
سوشل میڈیا نے اکاؤنٹ بنا کر پلیٹ فارم کیا دے دیا تم سمجھے جمہور کے دن آگئے، گدھے نے ڈھنچوں ڈھنچو کی جگہ غرانا شروع کر دیا۔
اب تو یہ ملک ایک صدی پرانا ہونے کے قریب قریب ہے۔ اب تک تو تمھیں سمجھ آ جانی چاہیے تھی مگر لگتا ہے تم بیچاروں کو اب بھی یہی مضحکہ خیز مغالطہ ہے کہ سینیٹ الیکشن میں تو پیسہ چلا مگر عام انتخابات میں تمھارا ووٹ چلا۔