سینیٹ انتخابات کے بعد پی ڈی ایم کے سامنے ممکنہ چیلینجز کا ایک کٹھن راستہ منتظر ہے۔ اس امر پر وقتی خوشی تو ہو سکتی ہے کہ موجودہ نظام مسترد ووٹوں، غائب کیے گئے انتخابی عملے اور واٹس ایپ قسم کے انصاف پر مبنی ہے مگر اخلاقی بنیاد کو کھوکھلا ہوتے دیکھ کر شادیانے بجانا عملی سیاست کے مسائل کا حل نہیں۔
ویسے بھی پیپلز پارٹی جس نے صادق سنجرانی کو 2018 میں 12 مارچ کو سینیٹ چیئرمین بنوا کر اصولوں کی فتح کا اعلان کیا تھا اب ان کے مخالف اپنے امیدوار کی ہار کا رونا کیسے رو سکتی ہے؟ پہلا بڑا مسئلہ اندرونی اعتماد اور اتحاد کا ہے۔ سینیٹ میں اقلیتی جوڑی کی کامیابی کے بعد ن پیپلز پارٹی پر ، پیپلز پارٹی ن پر، مولانا فضل الرحمن ان دونوں پر، یہ دونوں مولانا فضل الرحمان پر اور باقی چھوٹی جماعتیں ان سب پر شک کر رہی ہیں۔
گویا ہر کسی کا خیال ہے کہ دوسرے نے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔ ہو سکتا ہے سبھی نے دوسرے کو گرانے کا بندوبست کیا ہو۔ مگر کون یہ تحقیقات کر کے سچ سامنے لائے گا؟ صادق سنجرانی کے پچھلے دور میں اپنی صفوں میں سے بھاگنے والوں کو پکڑنے کے لیے جو احتسابی کمیٹی بنائی گئی تھی وہ اپنی موت خود مر گئی۔ بھگوڑے نہ پکڑے گئے، کیوں کہ اگر بھگوڑے پکڑے جاتے تو بھگانے والوں کا نام بھی سامنے آتا اور اس طرح دونوں جماعتوں کے بڑے ناموں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔
اسی طرح ان سوالوں کا جواب کون تلاش کرے گا کہ کیوں فاروق ایچ نائیک ووٹوں کی گنتی کے دوران ممکنہ طور پر مسترد کیے جانے والے ووٹوں کو اعتراض اٹھائے بغیر مخصوص ٹوکری میں ڈالنے کے عمل کو خاموشی سے دیکھتے رہے؟ جو قانونی نکات انہوں نے مائیک کھول کر سید مظفر شاہ کے سامنے رکھے وہ اس وقت بیان کیوں نہ کیے جب یہ ووٹ علیحدہ کیے جا رہے تھے؟
اور یہ کیا کہانی ہے کہ سات مسترد شدہ ووٹ ایک ہی قسم کی غلطی کا نشانہ بنے؟ اگر الیکشن کروانے والے عملے نے ووٹوں سے متعلق بریفنگ میں مہر لگانے کے بارے میں وہ ہدایات دی تھیں جو صحیح ثابت نہیں ہوئیں تو پھر ان ہدایات پر صرف پی ڈی ایم کے ممبران ہی کیوں گمراہ ہوئے؟
مولانا غفور حیدری کے انتخاب میں مسترد ووٹ کا مسئلہ نہیں تھا وہاں پر تو سیدھا سادہ انحراف تھا جو 10 ووٹوں کی ہار میں تبدیل ہوا۔ کیا پی ڈی ایم کے جید سیاست دان یہ علم نہیں رکھتے تھے کہ غفور حیدری ایک مقبول امیدوار ہیں یا متنازعہ؟ سیاست میں پی ایچ ڈی کرنے والے اپنے امیدوار کی وقعت نہ بھانپ پائے یہ کیسے ممکن ہے؟
یہ مشکل سوالات ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ اندرونی اتحاد کے نام پر ان کے جوابات کو قربان کر دیا جائے گا۔ اور پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم پھر سے اپنی منتشر صفیں درست کر کے ’آگے کی بات‘ چلائے گا۔
دوسرا چیلینج بہرحال ’آگے کی بات‘ سے ہی متعلق ہے یعنی لانگ مارچ تاریخ تو طے ہو گئی ہے۔ اغراض و مقاصد و سمت و مقام ابھی بھی زیر بحث ہیں۔ پارلیمان کے سامنے کیوں نہ جائیں جہاں سب جاتے ہیں؟ مگر پھر جائیں تو جا کر کیا کہیں؟ عمرانی و قادری دھرنے کی طرح سرکاری املاک پر حملے کریں یا بس بیٹھے رہیں؟ فیض آباد اگر جائیں تو جا کر کیا کریں؟ ٹریفک کو بند کریں، آمدورفت معطل ہو اور اس طرح پریشان عوام کو مزید پریشان کر کے اپنی بنی ہوئی ساکھ کو بٹہ لگائیں؟
کیا یہاں پر بیٹھنے سے تحریک لبیک جیسی دستخط شدہ معاہدے کی دستاویز مل جائے گی؟ کیا کوئی پیسے دے کر یہ کہتے ہوئے رخصت کرے گا کہ آپ بھی ہم میں سے ہی ہیں؟ کیا کوئی چھوٹا موٹا استعفی حاصل ہو گا؟ نہیں ہو گا تو بیچ سڑک مٹی پھانکنے کے علاوہ کون سا منافع سیاسی جیب میں منتقل ہو گا؟
پنڈی جانے کی تجویز بیان کرنے میں تو بھلی معلوم ہوتی ہے مگر صدر بازار اور جی ایچ کیو میں بہت فاصلہ ہے۔ لاؤڈ سپیکروں کا رخ پنڈی کی طرف موڑ کر اگر بیان ہی دینے ہیں تو اسلام آباد میں پریس کانفرنسز میں کیا برا ہے؟ ایک دن کا لانگ مارچ یا سات دن کا دھرنا کر بھی لیا تو کیا ہو گا؟ پی ڈی ایم کے نمائندگان نواز شریف کی گوجرانولہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اس تقریر میں انہوں نے نام لے کر اسٹیبلشمنٹ کو پچھلے پاؤں پر ڈال دیا۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف نے یہ نام لندن میں بیٹھے لیے تھے اور ایک ہی مرتبہ لیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد سے لے کر اب تک پی ڈی ایم کی تمام قیادت احتیاط، اجتناب اور بین الاسطور پیغامات کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ یہ طے نہیں کر پا رہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو براہ راسٹ ٹکر ماریں یا غصے اور تنقید کا مرکز عمران خان کی حکومت ہی رکھیں؟
لانگ مارچ کے حوالے سے بحث طے شدہ تاریخ کے قریب مکمل ہو جانی چاہیے تھی، ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ پیپلز پارٹی اعتراض میں ایمان کے تیسرے درجے پر کام کر رہی ہے، یعنی اپنے اعتراضات کو یا تو دل میں رکھے ہوئے ہے یا ایسے بیان کرتی ہے کہ ایک جملہ سمجھ نہیں آتا۔
مولانا فضل الرحمان کا اعتراضی و تنقیدی ایمان دوسرے درجے پر ہونے کے باوجود کمزور پڑتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ان کے جملے اور حملے ختم ہوتے ہوئے جاڑے کی طرح ہیں۔ کبھی کبھار موسمی تبدیلی، ٹمپریچر اوپر نیچے کر دیتی ہے ورنہ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
ایمان کے پہلے درجے پر مسلم لیگ ن کو فائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کو کہا جا رہا ہے کہ عملی سیاسی لڑائی میں ہراول دستہ وہ بنے۔ سیاسی برائی کو ہاتھ سے روکے۔ سینیٹ انتخابات کے بعد ن لیگ کے بہت سے جوشیلے اب ہوش کے ناخن تلاش کر رہے ہیں۔ ان کو کچھ سمجھ و عقل آ رہی ہے کہ حفیظ شیخ کی ہار سے مرزا محمد آفریدی کی جیت تک جو معاملات بنے وہ محض واقعاتی یا حادثاتی نہیں ہو سکتے۔
اور پھر اگر نواز شریف کو میڈیا سے غائب کرنے کی پالیسی کے ساتھ مریم نواز کو نیب تحویل میں واپس بھیج دیا گیا تو ن لیگ کتنا موثر کردار ادا کر پائے گی؟ یہ وہ امور ہیں جنہوں نے پی ڈی ایم کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے۔ ملک کے تینوں ایوان ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔
’ایوان زیریں‘ میں اعتماد کا ووٹ ہو چکا، ’ایوان بالا‘ میں مسترد ووٹ جیت گئے اور ’ایوان سب سے بالا‘ کو چلانے والے اب پی ڈی ایم کو پھینٹا لگانے کے چکروں میں ہیں۔ یعنی حالات بہت نازک ہو گئے ہیں۔