’تم نے گاؤں میں میری ناک کٹوا دی۔ یہ میرا غلط فیصلہ تھا کہ میں نے تمھیں کراچی اپنے بھائی کے پاس بھیجا، جس نے میرے پوچھے بغیر تمھیں سکول میں داخل کرکے تعلیم دلائی۔
’میں اس علاقے کا میر ہوں۔ لوگ مجھے طعنہ دے رہے ہیں کہ تم اپنی لڑکی کو نہیں سنبھال سکتے جو ایف ایم ریڈیو میں کام کرتی ہے، دوسروں کو نصیحت کرتے ہو۔‘ یہ بلوچی زبان کی فلم ’بلوچ آباد‘ کا ایک سین ہے، جس کا موضوع لڑکیوں کی تعلیم اور اس میں حائل رکاوٹیں ہے۔
فلم میں مرکزی کردار گوادر کی انیتا جلیل بلوچ کا ہے، جنھوں نے ایک ایسے معاشرے میں تبدیلی کا سوچا، جہاں صرف کہنے کی حد تک لڑکیوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔
ابتدائی تعلیم
گوادر کی رہائشی انیتا نے ساتویں جماعت تک یہیں آغا خان سکول سے پڑھنے کے بعد کراچی سے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنی دادی کے انتقال کے باعث کراچی سے واپس گوادر آئیں اور میڑک کا امتحان دیا۔
میٹرک کے امتحانات کے بعد فارغ وقت میں انہوں نے پڑھانا شروع کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بچپن سے کچھ نیا کرنے کا شوق تھا، اس لیے پڑھانے میں ناکامی کے بعد انہوں نے گوادر کے مقامی ایف ایم ریڈیو چینل میں بطور آر جے کام شروع کیا۔
کچھ عرصہ بطور آر جے کام کرنے کے بعد وہ کام کے لیے دبئی چلی گئیں۔ دوسال دبئی میں رہنے کے بعد والدہ کے اچانک انتقال نے انہیں واپس گوادر کھینچ لیا۔
انیتا کے بقول ان کے خاندان میں تمام افراد پڑھے لکھے ہیں لہٰذا تعلیم حاصل کرنے کی پابندی نہیں اور کام کرنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے۔
انیتا آغا خان ہسپتال، گوادر سول ہسپتال میں بطور رضاکار، گوادر پورٹ اور مختلف این جی اوز میں کام کر چکی ہیں لیکن وہ بتاتی ہیں کہ ان سب کاموں کو دلی طور پر مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
اس دوران وہ انگریزی زبان سیکھنے کے لیے گوادر کے ایک سینٹر میں پڑھ رہی تھیں کہ ایک دن ان کے استاد نے انہیں تھیٹر میں کام کرنے کی پیشکش کی۔
تھیٹر کا سفر
انیتا نے بتایا کہ ان کے خاندان کا آرٹ سے بڑا تعلق ہے۔ والد گلوکار ہیں اور تھیٹر پر کام کرچکے ہیں، باقی فیملی میں بھی بہت سے آرٹسٹ رہے ہیں۔
دوسری اہم چیز جس نے انیتا کو تھیٹر سے قریب کیا وہ گوادر میں بلوچی زبان میں جتنی فلمیں ڈرامے ریکارڈ ہوتے تھے، ان کے تمام فن کاروں کا ان کے گھر میں آنا جانا تھا۔
انیتا کے مطابق یہی وجہ تھی کہ اس پیشکش نے ان کی دلی خواہش پوری کر دی۔ انہوں نے والد سے اجازت کے بعد اس میدان میں قدم رکھ دیا۔
انیتا نے بطورآرٹسٹ بلوچی زبان کے مختلف ڈراموں اور فلموں میں کام کیا۔ بلوچ معاشرے میں لڑکیوں کے ڈرامے، فلموں اور تھیٹر میں کام کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور ایسی لڑکیوں کو معاشرے کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا رہتا ہے۔ اسی خوف کے باعث کوئی سامنے آنے کو تیار نہیں ہوتا۔
انیتا نے بتایا، ’میں نے بچپن میں ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا تھا کہ لیکن تعلیم کے دوران جب دیکھا کہ یہ بہت سخت کام ہے تو فیصلہ واپس لے لیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اکثر سوچتیں کہ کاش نیوز رپورٹر بن جائیں، وہ والد کا موبائل فون اٹھا کر خود ہی نیوز رپورٹر بن کر ریکارڈنگ شروع کر دیتیں۔
انیتا نے اسی خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے گوادر نیوز کے ساتھ کام کیا اور نیوز رپورٹر بنیں۔
انہوں نے بتایا کہ انھیں تھیٹراور فلموں میں کام کی وجہ سے پزیرائی ملی اور لوگ خوش تھے کہ وہ بلوچی زبان کے فروغ کے لیے کام کررہی ہیں۔ ان کی وجہ سے دوسری لڑکیوں کو بھی اس شعبے میں آنے کا حوصلہ ملا۔
بلوچستان کی پہلی خاتون وی لاگر
انیتا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے علاقے کی پہلی خاتون وی لاگر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ایف ایم، تھیٹر، فلموں اور وی لاگنگ کے لیے گھر والوں کو قائل کرنے میں بہت وقت لگا لیکن جب گھر والے قائل ہو گئے تو انہیں کسی کی پرواہ نہیں رہی۔
انہوں نے بتایا کہ وی لاگنگ شروع کرنے پر جہاں کچھ حلقوں نے انہیں پسند کیا وہیں سوشل میڈیا پر اور زبانی مخالفت بھی شروع ہو گئی لیکن ان کے گھر والے ان کے ساتھ کھڑے رہے۔
’مخالفت کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی ملنا شروع ہوگئیں کہ میں بلوچوں کو بدنام کر رہی ہوں، یہ کام چھوڑ دوں ورنہ نقصان اٹھاؤں گی، یہ سب کچھ میرے لیے خوف کا باعث تھا۔‘
انیتا شکر کرتی ہیں کہ یہ تمام دھمکیاں صرف سوشل میڈیا کی حد تک رہیں، عملاً کسی نے کوئی غلط حرکت نہیں کی۔
انیتا نے بتایا کہ وی لاگنگ شروع کی تو ان کے پاس ڈھنگ کا کیمرہ اور ایڈیٹنگ کےلیے لیپ ٹاپ نہیں تھا، جس پر انہوں نے مختلف لوگوں سے مدد لی۔ یہ معاملات اس وقت تبدیل ہوئے جب یوٹیوب سے انہیں کمائی ہونے لگی، جس کے بعد انہوں نے اپنا موبائل فون خریدا اور لیپ ٹاپ سپانسر ہوا۔
ان کے یوٹیوب پر 18 ہزار تک سبسکرائبرز ہو چکے ہیں۔ ان کی اکثر ویڈیوز میں گوادر کی خوبصورتی، اس کے لوگ اور مسائل کا تذکرہ ملتا ہے۔
کیا کھویا کیا پایا
انیتا گذشتہ تین سال سے مرکزی میڈیا کے ریڈار پر نظر آتی ہیں۔ وی لاگنگ کے باعث انہیں پذیرائی ملی اور وہ پاکستان بھر میں مشہور ہوئیں۔ انیتا نے انڈپینڈنٹ اردو کو مسائل اور کامیابیوں کے بارے میں بتایا کہ کئی رکاوٹیں آئی، دھمکیاں بھی ملیں لیکن وہ رکی نہیں اور آگے بڑھتی رہیں۔
’ان سب نے مجھے حوصلہ دیا اور کامیابی میرے قدم چومتی رہی۔ میری وجہ سے نہ صرف دوسری لڑکیوں کو راستہ ملا بلکہ ان کی خواہشوں کو راستہ میں نے دکھایا۔‘
انیتا خوش ہیں کہ وہ دوسری لڑکیوں کے لیے مثال ہیں۔’اب نہ صرف ایف ایم ریڈیو بلکہ ڈراموں، تھیٹر اور فلموں میں بھی کئی لڑکیاں کام کررہی ہیں۔ بعض ایسی ہیں جو گھروں میں بیٹھی کام کر رہی ہیں۔‘
ملٹی میڈیا آرٹسٹ انیتا کو بلوچ کلچر ڈے اور اس طرح کے دوسرے پروگراموں میں میزبانی کے لیے بھی بلایا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ چونکہ تعلیم اور گھریلو ذمہ داریاں بھی ادا کرتی ہیں لہٰذا فی الحال فلمیں اور تھیٹر نہیں کر رہیں۔
ہراسانی کیس
انیتا کہتی ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کو اگر تسلیم کربھی لیا جائے تو بعض لوگ اسے برداشت نہیں کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انتیا کے مطابق چھوٹی سطح پر یہ سب کچھ ہوتا رہا تو وہ اسے نظر انداز کرتی رہیں لیکن جب بڑی سطح پر انہیں ہراساں کیا گیا تو ان سے برداشت نہ ہوسکا۔
انیتا سمجھتی ہیں کہ وہ بہت بڑا قدم تھا جب انہوں نے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’جب میں نے یہ قدم اٹھایا تو مجھے پتہ چلا کہ کیوں لڑکیاں آواز نہیں اٹھاتیں کیوں ان کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔‘
انیتا نے جب ہراسانی کے خلاف کیس کیا تو یہ معاملہ عام ہو گیا اوران کے حق اور مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹھوس ثبوتوں کی وجہ سے کیس ان کے حق میں تھا لیکن پھر بھی انہیں اس سے دست بردار ہونا پڑا۔
انیتا کے مطابق ان کے کیس واپس لینے کے باوجود دوسری لڑکیوں کو جرات ملی اور بہت سی لڑکیوں نے ان سے اپنے ایسے مسائل شیئر کیے، جن پر وہ کھل کر بات نہیں کر پا رہی تھیں۔
انیتا جلیل بلوچ نے لڑکیوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہتی ہیں تو سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو قائل کریں کیونکہ اگر والدین راضی ہوجائیں تو پھر انہیں دوسرے مسائل سے نمٹنے میں مشکل نہیں ہوگی، دوسرا انھیں خود پر یقین ہونا چاہیے۔