اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کی جانب سے حال ہی میں پاکستان میں موسمیاتی ایکشن اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے یوتھ ایڈوکیٹ نامزد ہونے والی بلوچستان کی 14 سالہ زنیرہ قیوم کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے نہ صرف ان کا خاندان متاثر ہوا اور نقل مکانی پر مجبور ہوا بلکہ ان کی تعلیم بھی متاثر ہوئی جس کے بعد انہیں موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
زنیرہ قیوم کے مطابق: ’جب مجھے پتہ چلا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کے باعث لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو میں اس موضوع پر کام کرنے کا سوچا۔
’میرے کام کی حوصلہ افزائی کے لیے یونیسیف نے مجھے یوتھ ایڈوکیٹ مقرر کیا، جس پر مجھے فخر ہے۔ میں بچوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے کام کروں گی۔ حقیقی تبدیلی تب ممکن ہے جب بچوں اور نوجوانوں کی آواز سنی جائے اور انہیں فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔‘
یونیسیف کی جانب سے دو سال قبل نوجوان محققین کو پالیسی سازی میں شامل کرنے، ان کی آوازوں کو موثر بنانے اور نوجوانوں کو تحقیق کے ذریعے پالیسی کی تشکیل میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرنے کے لیے پالیسی ریسرچ چیلنج 2023 منعقد کیا تھا۔
زنیرہ قیوم نے پالیسی ریسرچ چیلنج 2023 میں حصہ لیتے ہوئے بلوچستان میں اپنے آبائی ضلع حب میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلابوں کے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر منفی اثرات پر تحقیق کی اور ان کی یہ تحقیق 2023 میں یونیسیف پالیسی ریسرچ چیلنج کے فاتحین میں شامل تھی۔
زنیرہ قیوم کے موسمیاتی تبدیلی پر ان کے کام کی حوصلہ افزائی کے لیے یونیسیف کی جانب سے ڈان میڈیا بریتھ کے زیر انتظام پاکستان کلائمیٹ کانفرنس میں انہیں پاکستان میں موسمیاتی ایکشن اور لڑکیوں کے حقوق کے لیے اپنا یوتھ ایڈوکیٹ مقرر کیا تھا۔
ان کی بطور یوتھ ایڈوکیٹ مقرری سات فروری 2025 کو ہوئی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے زنیرہ قیوم نے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سیلاب صحت کو اور دیگر شعبوں کو متاثر کرتے ہیں، مگر چوں کہ میں نے شعبہ تعلیم پر کام کیا ہے تو مجھے محسوس ہوا کہ سیلابوں کے باعث لڑکیوں کی تعلیم شدید متاثر ہوتی ہے کیوں کہ سیلاب کے باعث لڑکیوں کے سکولوں کو نقصان پنچتا ہے اور ان کی تعلیم کو متاثر کرتا ہے۔‘
زنیرہ قیوم کے مطابق ان کا اپنا بچپن حب ضلع کے نواحی گاؤں زہری میں گزرا مگر وہاں آنے والے سیلابوں کے باعث فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، زراعت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ لڑکیاں تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی تھیں کیوں کہ ان کے سکول مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔
بقول زنیرہ قیوم: ’میں جب ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھی، تب موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سیلاب سے میرا گاؤں زہری شدید متاثر ہوا اور سیلاب کے باعث میرا سکول مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور میرے لیے تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میری تعلیم کو جاری رکھنے اور بہتر مستقبل کے لیے میرا خاندان میرے گاؤں زہری سے نقل مکانی کرکے حب آگیا۔ اس لیے مجھے احساس ہے کہ موسمیاتی تبدیلی جب کاندانوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔‘
زنیرہ قیوم نے یونیسیف کے یوتھ ایڈووکیسی گائیڈ کا استعمال کرتے ہوئے حب میں نوجوانوں کو وکالت، پالیسی سازی، تحقیق اور مہمات کے لیے نیٹ ورک بنانے کی تربیت دی۔
بلوچستان خشک سالی، پانی کی قلت سمیت مختلف ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق بلوچستان پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں شامل ہے۔
حب، لسبیلہ، تربت اور گوادر جیسے علاقے گرمی کی شدید لہر، پانی کی شدید قلت، خشک سالی، بے وقت کی بارش اور اچانک آنے والے سیلابوں کی زد میں ہیں، جن کے باعث نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے بلکہ تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع بھی محدود ہو گئے ہیں۔
زنیرہ قیوم کے مطابق بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات خاص طور پر بچوں اور خواتین کے لیے مزید چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔ پانی کی قلت اور شدید موسم کے باعث سکولوں میں حاضری متاثر ہو رہی ہے، جبکہ سیلاب کی وجہ سے دیہی علاقوں میں تعلیمی سلسلہ بار بار تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔
بقول زنیرہ قیوم: ’لڑکیوں کی تعلیم پر اس کے خاص طور پر منفی اثرات دیکھے جا رہے ہیں، کیونکہ قدرتی آفات کے بعد اکثر والدین اپنی بیٹیوں کو سکول بھیجنے کے بجائے گھریلو ذمہ داریوں میں لگا دیتے ہیں۔
’اس لیے لڑکیوں کی تعلیم پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔‘
زنیرہ قیوم نے نیپال میں کانفرنس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں منعقد ہونے والی کانفرنس کوپ 29 میں شرکت کرکے پاکستان کی نمائندگی کی۔
کچھ نوجوان کارکنوں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلوں کے حل کے لیے عالمی سطح پر کوپ سمیت مختلف کانفرنسز کو بے اثر قرار دینے والے بیانات کو رد کرتے ہوئے زنیرہ قیوم نے کہا کہ وہ ان تمام کانفرنسز سے پرامید ہیں کہ ان میں ایک دن موسمیاتی تبدیلی کا حل تلاش کیا جائے گا۔
زنیرہ قیوم کے مطابق: ’کوپ 29 کانفرنس میں شرکت کرکے مجھے حوصلہ افزائی ہوئی کہ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے لوگ شامل ہوکر موسمیاتی تبدیلی کے مختلف پہلوؤں پر بات کررہے تھے اور مجھے امید ہے کہ کوپ جیس عالمی کانفرنس موسمیاتی تبدیلی کا بہتر حل تلاش کریں گی۔
’نوجوانوں کو میاسوس نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ اپ کہاں سے آئے ہیں یا آپ کا پس منظر کیا ہے۔ نوجوان بڑے خواب دیکھیں اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کام کریں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘