صوبہ سندھ کی پولیس نے اپنے محکمے میں جعلسازی سے 32 سال تک نوکری کرکے انسپکٹر کے عہدے تک پہچنے والے افسر کے انکشاف کے بعد اس قسم کے مزید کیسز کو پکڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کردی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) اسٹیبلشمنٹ سندھ پولیس لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) مقدس حیدر نے بتایا کہ دو روز قبل 32 سال تک جعلسازی سے نوکری کرنے والے سندھ پولیس کے افسر کی نشاندہی کے بعد ان تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 19 مارچ کو سندھ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس مشتاق مہر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک حکم نامے میں بتایا گیا تھا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے 1989 میں اعجاز غلام مصطفیٰ وگھیو نامی شخص کو نوکری دی، تاہم ان کی جگہ اعجاز احمد ترین نے جعلسازی کرکے اس پوسٹ پر جوائن کرلیا۔ بعد میں اعجاز احمد ترین نے 1997 میں سندھ پولیس میں ٹرانسفر کروا لیا، آؤٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کیں اور انسپکٹر کے عہدے تک پہنچ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکم نامے کے مطابق: ’انسپکٹر اعجاز احمد ترین نے سنیارٹی کی درخواست دی تاہم معاملہ ٹربیونل پہنچا تو انکشاف ہوا کہ ان کی نوکری جعلی ہے، اس لیے ان کی نوکری فوری طور ختم کی جاتی ہے اور ان کو دی گئی مراعات اور سرکاری اسلحہ واپس لیا جائے۔‘
لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) مقدس حیدر کے مطابق: ’اعجاز احمد ترین کو اسلام آباد کے محکمہ پولیس نے نوکری دی تھی اور وہ بعد میں ٹرانسفر کروا کے سندھ پولیس میں آئے تھے، اس لیے سندھ پولیس نے اسلام آباد پولیس کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے خط لکھا ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا اعجاز احمد ترین کے علاوہ بھی سندھ پولیس میں دیگر افسران کا جعلسازی کے ذریعے نوکری حاصل کرنے کا امکان ہے؟ لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) مقدس حیدر نے بتایا: ’اس انکشاف کے بعد سندھ پولیس نے کسی افسر کے جعلسازی کے ذریعے نوکری کرنے کے خدشے کے پیش نظر اپنے محکمے میں بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کردی ہیں۔‘
سندھ پولیس کے ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس سے سندھ پولیس میں اب تک 34 اہلکاروں اور افسران تبادلہ کروا کے آئے ہیں جبکہ سندھ پولیس نے اعجاز ترین کے معاملے کے انکشاف کے بعد ان تمام اہلکاروں اور افسران کا ڈیٹا طلب کرکے تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔