کچھ عرصہ قبل تک کراچی کا کچرا اور شہری سیلاب ہی میڈیا میں رپورٹ ہوتا رہا ہے، مگر گذشتہ چند دنوں سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا کراچی جلسہ، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر پر مقدمہ، گرفتاری اور اس کے لیے آئی جی سندھ کا مبینہ اغوا، پولیس افسران کی جانب سے مشترکہ چھٹیوں کی درخواست، صوبائی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا ردعمل اور بعد میں ساری صورت حال پر آرمی چیف کا نوٹس اور انکوائری کا حکم شہ سرخیاں بنا رہا ہے۔
اس معاملے پر گذشتہ روز کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر پر مقدمہ درج کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کے احکامات پر دستخط کروانے کے لیے جس طرح آئی جی سندھ کے ساتھ سلوک کیا گیا اس پر لوگ سوال اٹھارہے ہیں۔
اس کے جواب میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت اداروں کو بدنام کرنے کے لیے الزام تراشی کر رہی ہے۔
ایک نجی ٹی وی شو میں بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اور رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے کہا: ’آئی جی کوئی بچے نہیں جنہیں اغوا کرلیا جائے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس افسران کی اجتماعی چھیٹیوں کے پیچھے اصل بات یہ ہے کہ سندھ پولیس 2019 کے پولیس آرڈر کے بعد سے ہی سندھ حکومت سے ناراض تھی، اس لیے انہوں نے ایسا کیا، جس پر زبردستی تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ آئی جی والے معاملے پر ہوا ہے۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ’شبہ ہی نہیں کہ سندھ پولیس کے افسران بلاول ہاؤس کے اشارے پر چھٹی پر گئے، ورنہ جب اومنی والوں کے سامنے لائن لگا کر کھڑے ہوتے تھے تو بھی اس طرح کا ردعمل ہوتا۔۔ اداروں کو نیچا دکھانے کی کوششیں اور سازشیں ناکام بنانی ہوں گی۔‘
کوئ شبہ ہی نہیں کہ سندہ پولیس کے افسران بلاول ہاؤس کے اشارے پر چھٹی پر گئے، ورنہ جب اومنی والوں کے سامنے لائن لگا کر کھڑے ہوتے تھے تو بھی اس طرح کا ردعمل ہوتا، پاکئ داماں کی یہ حکائیت آگے بڑھی تو معاملات کھلیں گے، اداروں کو نیچا دکھانے کی کوششیں اور سازشیں ناکام بنانی ہوں گی
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) October 21, 2020
حکمران جماعت تحریک انصاف کے کئی وزرا خصوصاً فیصل واوڈا منگل کی رات ٹی وی ٹاک شو میں میزبان کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کو اکساتے رہے کہ سندھ حکومت نے آئی جی کو مبینہ طور پر اغوا کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں درج کی اور وہ اس میں ملوث افراد کے نام کیوں نہیں لے رہی ہے؟ یا وہ کس سے ڈرتی ہے۔
مبصرین کے خیال میں ایسا کرنے سے سیاسی حدت میں مزید خطرناک حد تک اضافہ ہونے کا خدشہ تھا۔
اس حوالے سے تجزیہ نگار اور صحافی منظور شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’پولیس کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کوشش کی کہ وہ پیپلز پارٹی قیادت کو غصہ کرنے پر اکسائیں، تاکہ وہ اداروں کی مخالفت میں کچھ آگے جائیں اور ان کے معاملات خراب ہوں، مگر پی پی پی قیادت نے غصے کی بجائے سمجھ داری سے کام لیا اور اس معاملے کو بہتر طریقے سے چلایا۔‘
ان کے بقول: ’پولیس افسران کی جانب سے لکھی گئی چھٹیوں کی درخواست میں ایک مشترکہ لفط استعمال کیا گیا ہے ’مین ہینڈل‘ یعنی برا سلوک، جس کا مطلب ہے کہ آئی جی سندھ کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نے پولیس کو احتجاج کا کہا ہوگا، جس کا بہت اثر ہوا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایڈیشنل جنرل پولیس وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے اور عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب بھی وفاق کی بجائے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت صرف سندھ میں ہو تو سندھ حکومت کا ہمیشہ آئی جی سندھ سے کسی نہ کسی بات پر جھگڑا رہا ہے، مگر پہلی بار ہے کہ نہ صرف سندھ حکومت کا آئی جی سندھ سے کوئی جھگڑا نہیں، بلکہ پوری سندھ حکومت آئی جی سندھ کی حمایت میں کھڑی ہو۔‘
تجزیہ نگار اور سکیورٹی معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی ثاقب صغیر نے کہا کہ 2014 میں کچھ عرصے کے لیے آنے والے آئی جی اقبال محمود سے سندھ حکومت کا بکتر بند گاڑیوں کی خریداری پر جھگڑا رہا اور آ خرکار آئی جی اقبال محمود کو جانا پڑا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ثاقب صغیر نے بتایا: ’اس کے بعد آنے والے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے ساتھ بھی پولیس افسران کے ٹرانسفر، پوسٹنگ اور میرٹ پر بھرتیوں کے باعث تناؤ رہا، جس کے بعد سندھ حکومت نے ان کے ساتھ کام کرنے انکار کردیا مگر وہ عدالت سے آرڈر لے لائے اور کام جاری رکھا، مگر تناؤ چلتا رہا۔ اس کے بعد کے آئی جی کلیم امام سے بھی اختلافات رہے۔‘
ثاقب صغیر کے مطابق موجودہ آئی جی سندھ مشتاق مہر سے بھی پی پی پی کی سندھ حکومت کا کچھ عرصے اختلاف رہا مگر بعد میں مشتاق مہر نے خود صلح کرلی اور اب وہ سندھ حکومت کے پسندیدہ آئی جی بن گئے ہیں۔