ہماری دلی دعا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور بیگم بشریٰ جلد صحت یاب ہو جائیں۔ کرونا (کورونا) انفیکشن صحت کو لاحق ایک خطرناک خطرہ ہے۔ ہر انسانی کی جان کا تحفظ چاہنا ایک فطری اور اخلاقی بات ہے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ وزیر اعظم کی پازیٹو رپورٹ کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر عجیب و غریب زاویوں سے بحث کا آغاز ہو گیا۔ ٹرینڈز بننے لگے جن میں سیاسی دشمنی کی بو محسوس کی جا سکتی ہے۔ کسی نے کہا کہ وزیر اعظم نے ویکسی نیشن کروائی تو کرونا کیسے ہو گیا؟ مولانا فضل الرحمن نے کرونا کی خبر اور ویکسی نیشن دونوں میں سے کسی ایک کے فراڈ ہونے کا نکتہ اٹھایا۔
یہ بھی بحث چل نکلی کہ ویکسی نیشن کرونا کے خلاف مدافعت کو بڑھانے میں کتنی موثر ہے۔ وزیر اعظم کا قوم کو بتلائی جانے والی تمام احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھنے کے عمل پر بھی دھواں دار مباحثے چھڑ گئے۔ وہ تصاویر شیئر ہونے لگیں جن میں وزیر اعظم ماسک کے بغیر سرکاری تقریبات میں شرکت کر رہے ہیں جبکہ ان کے صحت کے ماہرین ملک بھر میں احتیاطی پابندیوں کو لاگو کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
ان مباحثوں کا ہر پہلو قابل تجزیہ نہیں ہے۔ ہمیں ویکسی نیشن کے موثر ہونے کے بارے میں عوام کے خدشات کو زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے اعداد و شمار آپ کو دھڑا دھڑ ہونے والی ویکسی نیشن کے بارے میں روزانہ بتلا رہے ہیں۔
برطانیہ جو بدترین انفیکشنز کا شکار رہا اب زندگی کو معمول پر لانے کی ڈگر پر چل نکلا ہے۔ یو اے ای، سعودی عریب، جاپان، امریکہ، یورپ اور دیگر ایشیائی ممالک بشمول سری لنکا اور بھارت ویکسی نیشن کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر کرونا کو روکنے کی دوڑ میں وہ دوسروں سے پیچھے رہ گئے تو جانوں کے ضیاع اور معاشی المیوں کے ساتھ ان کو بین الاقوامی علیحدگی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کی ایک صورت ان کے شہریوں پر نکل و حرکت کی پابندیاں اور وہاں سے آنے والے تجارتی مال کی شخت سکریننگ وغیرہ شامل ہیں۔
اپنی معاشی صورت حال اور بین الاقوامی امیج کے پیش نظر ہم ان ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کی قیمت ادا نہیں کر سکتے جو کم ویکسی نیشن کی وجہ سے ہر جگہ شک کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ جلد ویکسی نیشن کروانا حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ویکسین لگوانا ہمارا ذاتی، معاشرتی اور قومی فرض ہے۔
اس کے ساتھ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ وزیر اعظم کی انفیکشن کی رپورٹ کے بعد جس طرح کی بحث چھڑی اس سے حکومت کے اس اعلی ترین عہدے پر فائز شخصیت سے متعلق عوامی تصور کے پیچیدہ مسائل کھل کر سامنے آئے ہیں۔ وزیر اعظم ویکسین لگوا رہے ہیں تو کچھ حلقے اس کو مصدقہ اطلاع کی بجائے پروپیگینڈا کا نام دیتے ہیں۔
وزیر اعظم کی رپورٹ مثبت آتی ہے تو بعض حلقے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ کرونا کیسز کم ہونے کی سرکاری اطلاع سامنے آتی ہے تو عوام نہیں مانتے۔ کرونا کی نئی لہر کا تذکرہ ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق سیاست سے ہے وبا سے نہیں۔
یہ بحث حکومت کی ساکھ کا ایک پیمانہ بھی ہے جس سے آپ عوامی جذبات کے بہاؤ کی سمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی کہ وزیر اعظم سے متعلق ویکسی نیشن اور انفیکشن کی خبر پر یقین کروانے کے لیے سرکار بار بار وضاحتیں دیتی رہتی ہے؟
ہمدردی کی بجائے طنز اور طعنے کیوں سننے کو مل رہے ہیں؟ ایک وضاحت سچ کی اس درگت سے جڑی ہوئی ہے جو سرکار نے پچھلے تین سال میں حقائق کو توڑنے موڑنے کے عمل سے بنائی ہے۔ حکومتیں عمومی طور پر عوامی اعتبار کی نچلی سطح پر پائی جاتی ہیں۔
موجودہ حکومت نے اپنے لیے اس عمومی مصیبت کو مزید گھمبیر کیا جب اس کا ہر دعویٰ، وعدہ، نعرہ، منصوبہ خود سے بنائی ہوئی توقعات پر پورا نہ اتر پایا۔ ’ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکان‘ ایک ایسی مثال بن گئی ہے جو ٹھیس لگے عوامی اعتبار کو ہر شعبے کے حوالے سے واضح کرتی ہے۔
غربت کا خاتمہ اور قرضے واپس کرنے کی بلند و بانگ شیخیاں بگڑتے ہوئے حالات کا ایسا متضاد ہیں جس کے بعد سرکار کا کوئی بھی کہا قابل یقین محسوس نہیں ہوتا۔ چینی کی قیمت میں مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہونے والی کمی کو چند ماہ پہلے وزیر اعظم نے ٹویٹ کے ذریعے اپنی پالیسی کی کامیابی کی اعلی مثال بتایا اور اب وہی چینی 106 سے 110 روپے فی کلو گرام بک رہی ہے۔
چینی آٹا مافیا کے خلاف جہاد کے اوصاف بیان کرنے والے وزیر اعظم جب خود ان کے حصار میں خوشی سے بند نظر آتے ہیں تو سرکار کی بات پر سے اعتبار اٹھنا ایک قدرتی امر ہے۔ سینیٹ انتخابات میں ضمیر کے سودا گروں کو اپنے الفاط کے غضب کا شکار کرتے ہوئے انہی کے ووٹوں سے پھر سے معتبر ہونے والے کیوں کر عوام کو اپنے حقائق کی اصلیت کے بارے میں منا سکتے ہیں؟
معاملہ صرف ان تضادات کا ہی نہیں ان واضح مسائل سے انحراف کا بھی ہے جو حکومت ایک باقاعدہ پالیسی کے طور پر اپنائے ہوئے ہے۔ پنجاب میں رہنے والے ہر شہری کو پتہ ہے کہ بزدار انتظامیہ کتنی ناقص اور بے اثر ہے۔ مگر اصرار یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے بڑا انقلاب ابھی تک نہیں آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معیشت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور بیان یہ سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان ترقی کی اڑان بھر چکا ہے۔ ایسے میں دیکھنے اور سننے والے سرکار کے کسی بھی بیانیے کو سنجیدگی سے کیوں لیں؟ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ پچھلے سالوں میں ہم نے بیسیوں مرتبہ سرکار کو ناکارہ قسم کے ڈرامے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ مثلا بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی آئی ایم ایف شرط کو ہر پندرہ دن بعد پورا کیا جا رہا ہے مگر ساتھ یہ تسلی بھی دی جاتی ہے کہ بجلی اور گیس کے بل سو گنا زیادہ بھی آ سکتے تھے۔
وزیر اعظم نے مہربانی کرتے ہوئے اس اضافے کو اپنے مبارک ہاتھوں سے کاٹ کر آدھا کر دیا۔ جب بھی بدترین گورننس کی مثالیں سامنے آتی ہیں تو اس کے ساتھ 30 سال پر محیط تصوراتی ڈاکوؤں اور چوریوں کی گھسی پٹی داستان دوبارہ سے سننے کو ملتی ہے۔
کرونا کی مثال ایک اور مسئلے کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ پچھلے سال مارچ میں اس وبا کو سرکاری طور پر ماننے سے کئی ماہ پہلے ہم جیسے چند سر پھرے بار بار اس کے خطرات کی طرف اشارے کر رہے تھے مگر اس وقت سرکار نے خود سے عوام تک یہ پیغام پہنچایا کہ پاکستان چونکہ ایک نیک کابینہ کے تحت چل رہا ہے لہذا ہمیں کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ وزیر اعظم کو ماسک پہنا کر تصویر کھینچوانے میں کئی ماہ لگے۔ ہمیں بتایا گیا کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے ماسک پہننے کے اصرار پر وزیر اعظم نے بادل نخواستہ اس بنیادی احتیاط کی تصویری ضرورت کو پورا کرنے کی حد تک قبول کیا۔
پہلی لہر کے وقتی طور پر تھم جانے کے بعد ہم نے حتمی کامیابی کے پوسٹر لگا دیے۔ دوسری لہر کو سرکاری بے اعتنائی کا شکار بناتے ہوئے پالیسی سازی کی کسی بڑی ترجیح میں شامل نہ کیا۔ مہنگے ادارے بنا دیے، چاہنے والوں کی نوکریوں کا بندوبست کر دیا مگر ویکسین کے حصول میں ایسی دیر کی کہ تیسری لہر کے بیچ اب دوا کی تلاش کے لیے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔
ایک غیر سنجیدہ سرکار کی باتوں پر کون یقین کرے گا؟ جن کی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہو اور ریکارڈ کسی بڑی عظمت کی دلیل نہ ہو ان کا ہر بیان ایسے ہی لیا جائے گا جیسے وزیر اعظم کی ویکسی نیشن اور انفیکشن کی سرکاری اطلاعات لی گئیں۔ یہ بات افسوس اور رسوائی کی ہے مگر ہے سچ۔