چین کے شہر ووہان کے جس علاقے سے پہلا مریض سامنے آیا وہ جنگلی جانوروں کی منڈی ہے۔ پہلے کہا گیا کہ سوروں سے یہ وائرس آیا پھر چمگادڑوں پر توجہ مرکوز ہوئی، لیکن اب ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ وائرس پینگولن نامی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔
معروف سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پینگولن میں بھی کرونا وائرس پایا جاتا ہے اور جب اس وائرس کے جینیاتی مواد کا موازنہ ووہان کے کرونا وائرس (2019-nCoV) سے کیا گیا تو پتہ چلا کہ دونوں میں 99 فیصد اشتراک ہے۔
پینگولن کا گوشت بہت مہنگا اور چینی اسے شوق سے کھاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کے گوشت میں کئی خوبیاں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پینگولن پاکستان میں عام پایا جاتا ہے۔ چینی اس جانور کو مختلف ممالک سے درآمد کرتے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ گذشتہ ایک دہائی سے پاکستان سے پینگولن کی غیر قانونی سمگلنگ میں کافی اضافہ ہوا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان سے جن جانوروں کی غیر قانونی سملگلنگ ہوتی ہے، ان میں سب سے بڑی تعداد پینگولن کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پینگولن کو اردو میں چیونٹی خور کہا جاتا ہے اور یہ پاکستان کے کئی علاقوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی تعداد پوٹھوہار کے علاقے، خاص طور پر چکوال میں پائی جاتی ہے۔
آئی یو سی این (انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پینگولن کی حقیقی تعداد کے بارے میں باقاعدہ کوئی تحقیق نہیں ہوئی لیکن جب انگریز دور میں جنگل کاٹ کر بڑی تعداد میں زمینوں پر کاشت کاری شروع کی گئی تو سندھ میں یہ جانور کوہ سلمان کے پہاڑی علاقوں اور بلوچستان کی طرف ہجرت کر گیا اب سندھ میں صرف پانچ فیصد ہی پینگولن باقی رہ گئے ہیں۔
پاکستان وائلڈ لائف کنزرویشن فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین صفوان شہاب احمد نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چند سال پہلے تک پاکستان کسٹم پینگولن کی سمگلنگ کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کرتا تھا مگر اب اس تجارت سے وابستہ پیسے کی طاقت کے آگے سارے ادارے بے بس ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک پینگولن 25 ہزار کا بکتا ہے جو چین پہنچ کر دس لاکھ کا ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس کی کھال پر لگے ہوئے چھلکوں کی قیمت چینی مارکیٹ میں ساڑھے چار لاکھ روپے کلو تک ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وائلڈ لائف والے کہیں چھاپہ مارتے بھی ہیں تو چھلکوں کی 80 فیصد تعداد راستے میں ہی غائب کر دی جاتی ہے اور کاغذی کارروائی پور ی کر دی جاتی ہے۔
ان کے مطابق محکمہ وائلڈ لائف کے قوانین ابھی تک وہی پرانے ہیں اور پینگولن کے پکڑنے پر 15 ہزار جرمانہ یا چھ ماہ قید ہے جبکہ انڈیا میں پینگولن پکڑنے پر 20 سال قید یا دو کروڑ جرمانے کی سزا ہے۔
پینگولن ایک نہات ماحول دوست جانور ہے یہ چیونٹیاں اور دیمک کھاتا ہے لیکن گذشتہ سالوں میں اس کے غیر قانونی کاروبار کی وجہ سے سندھ اور خیبر پختونخوا میں اس کی تعدا د میں 90 فیصد، پنجاب میں 80 فیصد اور آزاد کشمیر میں 50 فیصد تک کمی آ چکی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں جنگلوں کو دیمک کھا رہی ہے۔
صفوان شہاب نے بتایا کہ ان علاقوں میں جانے سے پتہ چلتا ہے کہ جائیں وہاں دس دس فٹ تک درختوں پر دیمک چڑھ چکی ہے، اور پوٹھوہار اور آزاد کشمیر کے جنگلات دیمک کی وجہ سے مر رہے ہیں اور شاید اگلے چند سالوں میں یہ بالکل ہی ختم ہو کر رہ جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان سے چین میں پینگولن کی غیر قانونی سمگلنگ بڑے منظم چینلز کے ذریعے ہو رہی ہے اور مافیا نے اس میں پکھی واسوں کو لگایا ہوا ہے جو پینگولن کو پکڑتے ہیں پھر اس کا گوشت اور اس کے جسم پر لگے چھلکوں کو الگ الگ کرتے ہیں۔ اس مافیا کی سرپرستی کرنے والوں میں محکمہ وائلڈ لائف اور کسٹم کے حکام بھی شامل ہیں۔
اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پنجاب میں محکمہ وائلڈ لائف کا اعزازی وارڈن ایک بین الاقوامی شکاری کو لگایا گیا ہے، اسی طرح 18ویں ترمیم کے بعد وائلڈ لائف کا محکمہ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے اور صوبے وفاق کی مانتے ہی نہیں، وفاق چونکہ ان عالمی معاہدوں کو دستخط کردہ ہے جن کی رو سے نایاب جانوروں کی نسلوں کے تحفظ اس کی ذمہ داری ہے مگر وہ اپنی ذمہ داری صرف صوبوں کو خط لکھنے تک محدود کر چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پینگولن کی آبادی تیزی سے معدوم ہو رہی ہے اور صرف گذشتہ تین سالوں میں اس کی تعداد میں 84 فیصد کمی آ چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرنے کے ساتھ لوگوں میں پائے جانے والے مغالطے بھی ختم کرنا ہوں گے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قبرستانوں سے مردے نکال کر کھا جاتا ہے حالانکہ اس کی خوراک صرف چونٹیاں اور دیمک ہیں۔
محکمہ سندھ وائلڈ لائف نے جنوری 2019 میں کچھووں اور پینگولن کا دو ہزار کلو گوشت پکڑا جسے سمگلنگ کی غرض سے ذخیرہ کیا گیا تھا مگر اس وقت صورت حال بڑی عجیب ہو گئی جب وائلڈ لائف کے دفتر سے یہ قیمتی گوشت چرا لیا گیا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ چوری محکمے کی ملی بھگت سے ہوئی ہے۔
چونکہ پینگولن بڑے پیمانے سے پاکستان سے چین سمگل ہوتا ہے، اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کرونا وائرس ممکنہ طور پر اس جانور کے ذریعے چکوال سے چین گیا ہو اور وہاں سے انسانوں میں منتقل ہو گیا ہو۔
تاہم واضح رہے کہ صرف قیاس ہی ہے اور ابھی اس سلسلے میں مزید تجربات کرنا باقی ہیں جن سے حتمی طور پر یہ ثابت ہو سکے کہ پینگولن ہی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب ہے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ یہ معلوم کرنا ہو گا کہ یہ پینگولن کہاں سے آیا، جس کے بعد کہیں جا کر حالیہ وبا پھیلانے والے کرونا وائرس کے اصل منبع کا سراغ لگایا جا سکے گا۔