امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ امریکہ کی طویل ترین جنگ کا ’ذمہ دارانہ خاتمہ‘ دیکھنا چاہتی ہے لیکن ’نتیجہ خیز‘ سفارت کاری کو موقع دینے کے لیے ضروری ہے کہ تشدد میں کمی ہو۔
امریکہ کے نئے وزیر دفاع کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اتوار کو یہ لائیڈ آسٹن کا افغانستان کا پہلا دورہ تھا۔
امریکی فوجی افغانستان میں کتنے عرصے تک رہیں گے، ان سوالات کے حوالے سے لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ ’فوج کی واپسی کی حتمی یا مخصوص تاریخ کا تعین کرنا میرے باس کا اختیار ہے۔‘
امریکی وزیر دفاع، جنہوں نے دارالحکومت کابل میں افغان صدر اشرف غنی، فوجی کمانڈروں اور اعلیٰ حکومتی عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں، کا کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ’سنیں اور سیکھیں‘ اور افغانستان میں امریکی فوج کے مستقبل کے بارے میں ’اپنے شراکتی کردار کو بہتر سمجھ سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر جوب ائیڈن نے گذشتہ ہفتے امریکی چینل ’اے بی سی‘ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکہ کے لیے افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کی یکم مئی کی ڈیڈلائن کو پورا کرنا ’بہت مشکل‘ ہو گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر اس ڈیڈلائن میں توسیع ہوئی تو وہ ’زیادہ عرصے‘ کے لیے نہیں ہوگی۔
یاد رہے کہ میں فروری 2020 میں ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں امریکی فوجی کے افغانستان سے انخلا کی تاریخ یکم مئی رکھی گئی تھی۔
بھارت کا دورہ مکمل کر کے افغانستان پہنچنے والے امریکی وزیر دفاع نے کہا: ’معاملات کے حوالے سے ایک یا دوسری شکل میں خدشات ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ ایک ذمہ دارانہ اختتام اور جنگ کے مذاکرات کے ذریعے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات پر بہت توانائی صرف کی جا رہی ہے۔‘
اس سے قبل جمع کو طالبان نے امریکہ کی جانب سے فوج کی واپسی کی ڈیڈلائن پرعمل نہ کرنے صورت میں نتائج سے خبردار کیا تھا۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن سہیل شاہین نے رپورٹروں کو بتایا تھا کہ ’اگر امریکی فوج یکم مئی کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہی تو یہ ایک طرح سے معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔ یہ خلاف ورزی ہماری طرف سے نہیں ہو گی۔ ان کی جانب سے خلاف ورزی پر ردعمل سامنے آئے گا۔‘
لائیڈ آسٹن کی افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات کے بارے میں صدارتی محل کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے افغانستان میں تشدد میں اضافے کی مذمت کی ہے۔ تاہم اس میں فوج کی واپسی کی یکم مئی کی ڈیڈلائن کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف واشنگٹن گذشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر نظرثانی میں مصروف ہے اور طول پکڑتی لڑائی کے فریقوں پر دباؤ بڑھا رہا ہے تاکہ امن معاہدے کے لیے تیز راستہ تلاش کیا جا سکے۔
لائیڈآسٹن کے بقول: ’یہ واضح ہے کہ ملک میں تشدد بہت زیادہ ہے۔ ہم واقعی چاہتے ہیں کہ تشدد میں کمی آئے اور میرا خیال ہے کہ اگر اس میں کمی آتی ہے تو یہ نتیجہ خیز سفارت کاری کے لیے ماحول سازگار ہوسکتا ہے۔‘
بھارتی میڈیا ’اے این آئی‘ کے مطابق اس سے قبل دہلی میں صحافیوں سے بات چیت میں امریکی وزیر دفاع نے کہا تھا: ’میں جانتا ہوں کہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ صدر بائیڈن نے نومبر تک امریکی فوجیوں کو وہاں (افغانستان) رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر بائیڈن نے کوئی فیصلہ نہیں کیا یا اعلان نہیں کیا کہ وہ کب فجیوں کو واپس لائیں گے۔‘