امریکی جنگ کے اختتام اور افغان امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال کے لیے چار بڑی طاقتوں امریکہ، روس، چین اور پاکستان کے خصوصی مندوبین کا اجلاس ماسکو میں منعقد ہوا ہے۔
اس کانفرنس میں معروف افغان رہنما جن میں افغانستان کی سپریم قومی مفاہمت کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ اور طالبان کے دس سینیئر نمائندے بھی شریک ہیں۔
سابق صدر حامد کرزئی، سابق نائب صدر مارشل دوستم، اسلامی اتحاد پارٹی کے رہنما کریم خلیلی، اسلامی پارٹی کے رہنما گلبدین حکمت یار، ایوان نمائندگان کے سپیکر میر رحمان رحمانی، مذاکراتی کمیٹی برائے امن وزیر سعادت منصور نادری، وزیر مملکت برائے امور، حبیبہ سرابی، نادر نادری اور متین بیگ افغان حکومت امن مذاکرات کمیٹی کے ممبر ہیں۔
اجلاس میں شریک روس، چین، امریکہ اور پاکستان کے مندوبین نے افغان حکومت اور طالبان سے کہا ہے کہ وہ تازہ تشدد سے باز رہیں اور امن معاہدے کے لیے کام کریں۔
کانفرنس کے بعد مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم افغانستان کے تنازع سے جڑے تمام فریقین سے کہتے ہیں کہ وہ ملک میں تشدد کو کم کریں اور طالبان سے کہیں گے کہ وہ موسم بہار (سپرنگ) - سمر عسکری مہم کا آغاز نہ کریں، تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے اور سیاسی، سفارتی فوائد حاصل کرنے کے لیے سازگار ماحول بنایا جا سکے۔‘
کانفرنس کے آغاز پر روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے طالبان اور امریکہ درمیان مذاکرات کے حوالے سے کا کہنا تھا کہ ’ہم دونوں فریقین سے کہتے ہیں کہ وہ اس معاہدے پر قائم رہیں جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں حمایت حاصل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ دوحہ میں شروع ہونے والے سیاسی عمل کے نتائج اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آج کی گفتگو سے ایسا ماحول بنانے میں مدد ملے گی جس سے بین الافغان مذاکرات کو فروغ ملے گا۔‘
سرگے لاوروف نے کہا کہ ’ہمارے خیال میں فوجی انخلا میں مزید تاخیر ناقابل قبول ہے۔‘
اس موقع پر کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ ’معاہدہ فریقین کی ذمہ داریوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ اسلامی امارات نے اپنے وعدے پورے کیے ہیں اور ہم دوسرے فریق سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیال رہے کہ گذشتہ روز ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ یکم مئی تک افغانستان سے افواج کو نکالنا ’مشکل‘ ہوگا جس پر طالبان نے ردعمل میں امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ’نتائج‘ کا ذمہ دار امریکہ ہوگا۔
ماسکو کانفرنس کے بعد افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ایک سلسلہ وار ٹویٹس میں ملا عبدالغنی برادر کے خطاب کے حوالے سے لکھا کہ ’بین الاافغان مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ اسلامی امارات نے اپنی سرگرمیوں کو کم کر دیا ہے اور اگر معاہدے پر مکمل عمل ہو جاتا ہے تو تمام موجودہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس دوسرے فریق نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا۔‘
’معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زائد خلاف ورزیاں کی جا چکی ہیں۔ ہم نے بین الااقوامی برادری اور ممالک کو ان سے بار بار آگاہ کیا ہے۔ باقی ماندہ قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا۔ بلیک لسٹ اور ایوارڈ لسٹ کو ختم نہیں کیا گیا۔ بین الاافغان مذاکرات ابھی جاری ہیں اور ان کے سلسلے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش ہونی چاہیے۔‘
ملا عبدالغنی برادر نے مزید کہا کہ ’مستبقل کا اسلامی نظام بین الااقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ بین الااقوامی برادری، افغانستان کے عوام اور اس کے ہمسایہ ممالک سب کو فائدہ ہو سکے۔ ہم کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے اور چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کرے۔‘
انڈپینڈنٹ فارسی کی وحیدہ پیکان کے مطابق چاروں ممالک کے نمائندوں کا اجلاس کے بعد افغانستان کے لیے قطری نمائندے کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔
دوسری عالمی کوششوں پر صدر اشرف غنی نے اعلان کیا کہ اگر طالبان ’کل انتخابات کے لیے تیار ہیں، تو ہم بھی ہیں۔‘ لیکن انہوں نے متنبہ کیا کہ وہ انتخابات کے بغیر کسی کو اقتدار نہیں سونپیں گے۔
روس اور امریکہ مختلف امور پر متفق نہیں ہیں لیکن افغانستان میں امن کے لیے دونوں ممالک کے مفادات قدرے ایک سے ہیں۔ دونوں جنگ کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
افغانستان کو ’شام‘ بننے سے روکنے اور پیچیدہ اندرونی اور بیرونی جہتوں کی حامل جنگ کے خاتمے کے لیے علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا موقع فراہم کیا ہے۔