مسلم لیگ ن کی مریم نواز کے پیپلز پارٹی پر تابڑ توڑ حملوں سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ چوٹ کتنی گہری لگی ہے۔ صرف اختلافات ہی سامنے نہیں لائے گئے، عملاً سیاسی علیحدگی ہو چکی ہے۔
جب مریم نواز نے لکیر کھچ جانے کی بات کی تو وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کی جماعت کا پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی گزارا ممکن نہیں۔ بعض جملے خصوصی طور پر قابل توجہ ہیں۔ بالخصوص وہ جن میں ’باپ‘ کے حکم کو ماننے کا ذکر کیا گیا ہے۔
بلاول بھٹو نے اس بمباری کا کوئی خاص جواب نہیں دیا۔ وہ فی الحال اپنی اخلاقی پوزیشن کو سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی طور پر تو انہوں نے جو پانا تھا وہ پا لیا۔
مریم نواز آخر اتنے غصے میں کیوں ہیں؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو حزب اختلاف کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کی ملاقاتوں کی پرانی خبریں دوبارہ سے پڑھنی چاہییں۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو جواں نسل قیادت کے نمائندوں کی صورت میں بڑی سیاسی پلاننگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بھائی بہن کے رتبے عنایت کرتے ہوئے مہمان نوازی اور باہمی عزت سے بظاہر معاملات طے کرتے ہوئے دکھتے ہیں۔
یہ خبریں پڑھ کر آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ دونوں کسی ایسے دانش مندانہ پلان کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں جس سے پاکستان میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ مریم نواز نے ذاتی طور پر بلاول بھٹو سے سیاسی رابطہ برقرار رکھتے ہوئے گہرے اعتماد کا جو رشتہ قائم کیا تھا اب ریزہ ریزہ ہو گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ساتھ غیرضروری قربت پر احتیاط کی تجاویز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مریم نواز نے خود سے ایک سیاسی جوا بھی کھیلا۔ خیال یہ تھا کہ دونوں جماعتیں مل کر نئے انتخابات کے لیے ناصرف راہ ہموار کریں گی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو طویل المدت معیاد سیاسی اور آئینی قوائد و ضوابط کے تابع بھی لانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ یہ خواب سراب ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کا کھلے عام اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون مریم نواز کے لیے ایک ذاتی دھچکہ ہے۔
اس سے بڑا صدمہ میاں محمد نواز شریف کے لیے ہے۔ جو مریم نواز سے بھی بڑھ کر پی ڈی ایم سے توقعات لگائے بیٹھے تھے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ مریم نواز کی پالیسی حقیقت میں نواز شریف کے خیالات پر مبنی ہے۔ نواز شریف لندن سے ہدایات جاری کرتے ہیں تو مریم نواز سیاسی قدم اٹھاتی ہیں۔
مریم کا بلاول پر اعتماد، نواز شریف کا آصف علی زرداری پر تکیہ کرنے کا حصہ تھا۔ نواز شریف پاکستان میں سیاسی ماحول کو بھانپنے میں ناکام رہے ہیں۔
ایک وہ وقت تھا کہ جب وہ اپنی جماعت کی طرف سے فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بل کو خاموشی سے منظور کروانے میں عافیت سمجھتے تھے اور ایک وہ نکتہ کہ جب وہ اداروں کے سربراہان و نمائندگان کو مریم نواز کو لاحق ذاتی خطرات کے بارے میں وارننگ جاری کر رہے ہیں۔
یقین نہیں آتا کہ یہ دونوں پالیسیاں ایک ہی جماعت کی قیادت نے ہی اپنائی ہیں۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم میں بھی تضادات کو حل کرنے کی بجائے بڑھانے میں بہت سے ایسے اقدامات نظر آتے ہیں جن پر نواز شریف کی مہر ثبت ہے۔ اسمبلیوں سے استعفوں کی ہی مثال لے لیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ اپنی جماعت میں اس انتہائی قدم کے خلاف انتہائی تشویش پائی جاتی ہے اس پر ہفتوں بلکہ مہینوں اصرار کیا گیا۔ بالآخر کچھ ہاتھ نہ آیا لیکن خواہ مخواہ کا سیاسی اکھاڑہ بہر حال قائم ہوا۔
پھر مولانا فضل الرحمن کی خواہش کے مطابق لانگ مارچ کی تاریخ مقرر کرنے پر جھٹ سے ہاں کر دی۔ نہ یہ سوچا کہ اس لانگ مارچ کو کرنے کے لیے سیاسی وسائل میسر کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ نہ اس کی سمت کا تعین ہوا نہ مقام کا۔ خواہ مخواہ ایک تاریخ مقرر کرنے کے بعد سیاسی خفت اٹھانی پڑی کہ جب وہ دن مکمل خاموشی کے ساتھ گزر گیا اور کسی طرف سے کوئی وضاحت بھی نہ آئی کہ جس طوفان انقلاب کا ہر فسانے میں ذکر کیا جاتا تھا اس کا کیا بنا۔
اب مولانا فضل الرحمن کی طبیعت ناساز ہو گئی ہے۔ دو ہفتے میں رمضان المبارک شروع ہو جائے گا۔ پھر عید ہو گی، پھر گرمی، بارش اور بکر عید۔ کون سا لانگ مارچ؟ کہاں کا لانگ مارچ؟
اسی طرح آصف علی زرداری کے سیاسی مفادات کو بھی میاں محمد نواز شریف نے اپنی سیاسی پرکھ میں مرکزیت نہیں دی۔ ان کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی تقریبا اڑھائی تین سال سے ایک خاموش این آر او کے ذریعے کام کر رہی ہے۔
مقتدر حلقوں کی طرف سے صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی بات چیت میں بارہا بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات کو باہمی رضامندی سے طے کر لیا گیا ہے۔ یہ طے پا چکا ہے کہ اگر آصف علی زرداری کوئی نئے کارنامے سر انجام نہ دیں تو ان کے پرانے کارناموں پر کارروائی نہیں کی جائے گی۔
شرجیل میمن ہوں یا ڈاکٹر عاصم، ان کی ہمشیرہ ہوں یا وہ خود پکڑ نہیں کی جائے گی۔ سندھ حکومت نہیں گرائی جائے گی اور اگر ان کا رویہ مناسب رہا تو 2002 سے لے کر 2013 تک جو فارمولا مرکز اور پنجاب میں لاگو کیا گیا وہ دوبارہ سے واپس آ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پس منظر میں یہ جاننا مشکل نہیں کہ کیوں مریم نواز کے بیان کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بزدار حکومت کی جگہ پرویز الہی کو لانے کے لیے ن کی مدد طلب کی۔ اگر یہ سب باتیں صحافتی حلقوں میں مسلسل گردش کر رہی تھیں تو کیا نواز شریف کو ان کا علم نہیں تھا؟
یہ جانتے ہوئے کہ آصف علی زرداری اور ن لیگ مختلف ٹرینوں پر سوار ہیں، ایک ڈبے میں بیٹھ کر یکساں منزل کی پلاننگ کرنا عقل مندی کا کون سا تقاضا پورا کرتی ہے؟ نواز شریف اپنے تمام تر سیاسی تجربے کے باوجود پاکستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی معاملات سے کٹے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ آصف علی زرداری کے سیاسی داؤ پیچ پر نواز شریف ملک میں ہوتے تو بھی اثر انداز نہ ہو پاتے۔ نہ ہی وہ پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طے شدہ معاملات کو ادھر ادھر کر سکتے تھے۔ مگر توقع یہ ضرور تھی کہ وہ اپنی سیاست کو عملیت کے دائرہ کار سے اس حد تک باہر نہ لے جائیں گے کہ وہ افسانوی دنیا میں جا بسے۔
پیپلز پارٹی نے اس وقت تک اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ میں کافی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کی قیمت پی ڈی ایم کی عملا قربانی کی صورت میں بھی ہنسی خوشی ادا کر لی ہے۔ یہ فورم اپنی افادیت کھو چکا ہے۔
پیپلز پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں اگر کوئی تسلی خود کو دے سکتی ہیں تو وہ یہ ہے کہ وہ تاریخ کے دھارے کے ساتھ ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست تاریخ کے دھارے کے تابع نہیں۔ نظریہ وقتی و ذاتی ضرورت سے ہدایت لیتا ہے۔ یہاں ’باپ‘ جیتتا ہے اصول نہیں، نواز شریف خود اس نظام کا حصہ رہ چکے ہیں، ان کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے۔