امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ کے پاس وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے کئی راستے کھلے ہیں، جس میں سفارتی و سیاسی طریقہ کار کے ساتھ ساتھ بالآخر فوجی کارروائی سرفہرست ہے۔
مائیک پومپیو نے امریکی ٹیلی ویژن اے بی سی کے پروگرام ’ اس ہفتے‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ پیش گوئی نہیں کرسکتے کہ وینزویلاکے صدر کو کب اقتدار سے الگ کیا جائے گا؟ اس میں دن، ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ نکولس مدورو اس صورت حال سے خوش نہیں ہوسکتے کیونکہ اس وقت وہ برسرِ اقتدار تو ہیں لیکن حکومت نہیں کرپا رہے۔ ملک میں بے حد غربت اور بھوک ہے اور بیمار بچوں کو ادویات نہیں مل رہیں، وینزویلا کے موجودہ صدر ملک کے مستقبل کا حصہ نہیں ہوسکتے۔
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ امریکہ کو اس ہفتے خفیہ اطلاعات ملی ہیں کہ وینزویلا میں حزب اختلاف کے رہنما جوآن گوایدو صدر مدورو کو اقتدار سے الگ کرنے کی مہم کی قیادت کر رہے ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔
اتوار کو ٹیلی ویژن چینل فوکس نیوز پر بات چیت میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسے معاملات میں بعض اوقات وقت لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وینزویلاکے صدر کیوبا کی مدد کے بغیر اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے اس خیال کو بھی مسترد کردیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، صدر نکولس مدورو کی حمایت میں روسی کردار کے حوالے سے اپنے ہی مشیروں سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا تھا کہ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے بات کی ہے، جنہوں نے یقین دلایا ہے کہ ان کا ملک وینزویلا کے بحران میں نہیں الجھے گا۔
اس کے برعکس امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے کہا تھا کہ روس نے گذشتہ ہفتے کے آغاز پر وینزویلا کے صدر سے بات کرکے ان کے ملک چھوڑنے کی حوصلہ شکنی کی تھی۔
وینزویلا میں امریکی حمایت یافتہ حزب اختلاف کے رہنما جوآن گوایدو فوج کو اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے ہوئے صدر مدورو کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔
دوسری جانب وینزویلا میں اپوزیشن لیڈر نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکی فوج کے وینزویلا کی فوج کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکان کو مسترد نہیں کرسکتے تاہم امریکی انتظامیہ کی جانب سے اس قسم کی پیش کش پر پارلیمنٹ سے رائے لی جائے گی۔