یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
پیاری مریم، اچھے بلاول اور جناب مولانا!
آداب عرض ہے، خیریت نہیں پوچھوں گا کیونکہ علم ہے آپ سب خیریت سے ہیں ماشا اللہ۔ کوئی پوچھے تو ہم بھی بتائیں کہ کیسے ہیں۔
ٹی وی چینلز پر آپ سب قائدین نظر آتے رہتے ہیں۔ چند دن پہلے تک ہاتھوں میں ہاتھ لیے، ایک دوجے کا ساتھ دینے کا وعدہ کرتے دکھائی دیتے تھے، آج کل طعنوں تشنوں کے ذریعے آرسی مصحف کی رسم ادا ہو رہی ہے۔
میں ن لیگ کا وہ گمنام کارکن ہوں جو اپنے گلی محلے کے معمولی کام کروانے ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس جاتا تھا۔ جو آج بھی کراچی اولڈ سٹی میں پیپلز پارٹی کے جیالوں سے گہری دوستی رکھتا ہے مگر گذشتہ دو تین برسوں سے نظریاتی طور پر خود کو مسلم لیگی سمجھتا ہے۔
وہ بات یوں ہے کہ میرا سفری بیگ گذشتہ کئی ہفتوں سے تیار پڑا ہے۔ ایک جوڑی چپل، دو جوڑی قمیص شلوار، تولیہ، موبائل چارجر، پاور بینک، چائینہ والی ایمرجنسی ٹارچ اور ن لیگ کی ہری جھنڈیاں۔ پی ڈی ایم مارچ کے لیے جمع کیا گیا یہ سامان بیگ میں ہی رکھا ہے۔
لی مارکیٹ سے چند کلو کھجوریں خریدی تھیں۔ سوچا تھا اسلام آباد کی مشہور ڈی چوک کی کسی گرین بیلٹ پر بیٹھ کر نظریاتی دوستوں کے ساتھ کھائیں گے۔
اوہ یاد آیا! دیکھیں عمر کے ساتھ ساتھ یادداشت بھی کمزور ہو رہی ہے۔ ہم مولانا سے تو چھوٹے ہی ہوں گے لیکن آپ کے والدین زرداری اور نواز شریف کے دور کے سیاسی کارکن ہیں۔
خیر بات یہ ہے کہ ہمارے محلے کی مسجد میں ایک صاحب آتے ہیں وہ طاہر القادری کے بڑے مرید ہیں، پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے ڈی چوک دھرنے میں دو ہفتے گزارنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ انہی کے کہنے میں آکر میں نے بُھنے ہوئے کالے چنے کی بوری جوڑیا بازار سے پکڑ لی تھی۔
یہاں محلے کے دوست اب چھیڑ رہے ہیں کہ چچا گیرو سے کہو کھجوریں تو رمضان میں بنٹ بنٹا جائیں گی ہاں بھنے چنے پی ڈی ایم کے ایصال ثواب کی خاطر تقسیم کر دیں۔
بےامنی کی اتنی لمبی گہری سیاہ رات بھگتنے کے باوجود کراچی کے لونڈوں کی حس مزاح نہیں گئی۔ کہتے ہیں پچھلی بار تبدیلی والوں کے انقلاب کو جلاب لگے تھے اب کی بار انقلاب کو سخت قبض لاحق ہے۔
یہ تو اوچھا مذاق ہے جو لڑکے لپاڑوں میں چلتا رہتا ہے۔ مگر میرا سوال، میری تشویش بہت سنجیدہ ہے۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ سینیٹ الیکشن کے بعد ایسا کیا ہوا کہ جس زرداری کو مریم بی بی نے باپ کے برابر کہا اسی زرداری کو باپ باپ کے طعنے دینے پڑ گئے؟
یہ سینیٹ میں حزب اختلاف کا قائد بننا کیا ایسا ہی اہم تھا کہ پوری تحریک غرق ہو جائے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلاول کو جو دما دم مست قلندر کرنے کی جلدی تھی وہ ٹھنڈی کیوں کر ہوئی؟
مولانا بیچارے تو اکیلے دھرنا دے کر بھی جا چکے ان سے کیا شکوہ، مگر اب کی بار ایسا کیا ہوا کہ مولانا بھی روٹھ گئے؟
کیا اسمبلیوں سے استعفے دینا، کیا لانگ مارچ نکالنا یا دھرنا دینا آپ سب قائدین کے بس کی بات نہیں کیا یہ اتنا مشکل ہے؟
مزار قائد کو گواہ بنا کر مریم اور بلاول جو وعدے کیے تھے کہ آئندہ سیاست میں تلخی کو جگہ نہیں دیں گے وہ کیا ہوئے؟
مجھے لگا تھا کہ ملک بھر سے ٹرینیں بھر بھر کر جمہوری انقلاب کے ہم دیوانے اسلام آباد پہنچیں گے تو ن لیگ کی مرکزی قیادت فیض آباد پر استقبالیہ کیمپوں میں ہمارا انتظار کر رہی ہوگی۔
میں سوچ رہا تھا کہ کسی ن لیگی مرکزی رہنما سے مختصر سی ملاقات بھی ہو جائے تو گوش گزار کروں گا کہ جناب پنجاب سے دل رج گیا ہو اور پیپلز پارٹی سے شراکت اقتدار کی ساز باز کرنی ہو تو کراچی والوں کو نہیں بھولیے گا۔
خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، خرم دستگیر مجھے تو ان سب سے ملنا تھا، ان کے ساتھ مارچ کرنا تھا۔ ہم کارکنوں اور قائدین نے مل کر جمہوریت کی مکمل بحالی تک جنگ سڑکوں پر لڑنا تھی۔
پیاری مریم، اچھے بلاول اور جناب مولانا! اب ہم جیسے بےنام، بےنشاں کارکنوں کے لیے کیا حکم ہے؟
چنے کی بوری اور کھجوریں تو بنٹ جائیں گی۔ دھرنے کے لیے خریدی چپل، سوٹ اور ٹارچ بھی کام میں لے آوں گا مگر اس جھوٹی امید کا کیا کروں جو مجھے آئے روز پی ڈی ایم کے اجلاسوں کے بعد ہونے والی میڈیا بریفنگ سے ملتی تھی؟
میں یہ جوش ولولہ کہاں لے کر جاؤں جسے میاں نواز شریف کی تقریروں سے تحریک ملی تھی۔ یہ غصہ میں کہاں اتاروں جو کراچی کے ہوٹل میں محترمہ مریم کے کمرے کا دروازہ توڑنے کی خبر سن کر آیا تھا؟
قائدین تذبذب کا شکار ہیں، سیاست وقت کا کھیل ہے سیاسی پارٹنرز اتحاد بناتے توڑتے رہتے ہیں۔ یہ اور اس جیسی اور کئی باتیں میں سب کی سب ماننے کو تیار ہوں مگر لانگ مارچ کرنے اور دھرنا دینے کے اس موڈ کا میں کیا کروں جو پچھلے ایک سال سے پی ڈی ایم نے بنا دیا تھا؟
فقظ آپ کا کارکن
چچا گیرو
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔