یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
یہ چار اپریل کا دن تھا۔ تقریباً اٹھارہ ماہ کے بعد میں نے ریل میں بیٹھ کر لندن سے باہر جانے اور انگلینڈ کے موسم بہار کی خوبصورتی کو دیکھنے کی ہمت کی۔
اپریل کے اوائل میں ویسے بھی برطانیہ میں ایسٹر کی چھٹیاں ہوتی ہیں لیکن اس بار وائرس کی وجہ سے بیشتر ملازم یا سکول آن لائن ہی کام کرتے ہیں۔ سڑکوں پر آمدورفت صفر کے برابر رہتی ہے۔
راستے میں صرف اشیا ضروریہ سے بھری گاڑیاں نظر آتی ہیں جو زیادہ تر گھر گھر جا کر سودا سلف فراہم کرتی ہیں۔
80 فیصد سے زائد آبادی اب آن لائن شاپنگ پر انحصار کرنے لگی ہے۔
لندن کے وسط میں کنگز کراس ریلوے سٹیشن میں کرونا پھیلنے سے پہلے تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ یہاں ایسٹر کے وقت ہر سجی دکان مسافروں سے کچھا کھچ بھری پڑی رہتی تھیں۔ لیکن آج اکا دُکا مسافروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
معروف شاعر ٹی ایس ایلیٹ نے بہار کے موسم پر لکھا تھا کہ ’اپریل سنگ دل مہینہ ہے مگر اس موسم میں نئی زندگی بھی ملتی ہے۔‘ ورڈس ورتھ نے ’ڈیفوڈلز‘ لکھ کر ہم جیسے لوگوں کو بھی باہر جا کر بہار کے نرگس یا گل لالہ کو دیکھنے کی تڑپ پیدا کر دی تھی۔ اب کی بار ایسی وبا آئی ہے کہ نرگس اور گل لالہ نہ اپنے مداحوں کو دیکھ پا رہے ہیں اور نہ کوئی ان کی تعریف کر رہا ہے۔
بارہ ڈبوں پر مشتمل جس صاف ستھری خالی ٹرین میں میں سفر کر رہی تھی اس کو بغیر مسافروں کے چلانے کا فیصلہ بھی عجیب ہے۔ جس ریل میں تقریباً پانچ سو سے زائد افراد سفر کیا کرتے تھے وہ آج میرے لیے مخصوص تھی۔ پرمسرت خیال آیا کہ کہیں میں ملکہ برطانیہ تو نہیں بن گئی جو تمام ٹرین میرے لیے وقف ہے۔ پھر چائے اور سینڈوچ سے بھی نوازا جا رہا ہے۔
خسارہ اربوں ڈالر کا ہو رہا ہے البتہ ٹرانسپورٹ کی سہولت ایک مسافر کے لیے بھی دستیاب رکھی گئی ہے۔
مجھے دہلی کے پہاڑ گنج کا ریلوے سٹیشن یاد آ رہا ہے۔ چند برس پہلے فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کے باوجود درجنوں مسافروں کے جمگھٹ میں پھنس گئی تھی جس کے ڈبوں کے باہر آج بھی درجنوں مسافر لٹکتے ہوئے میلوں ایسے ہی سفر طے کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں کی شاید یہ پہچان ہے کہ یہاں نہ تو ڈبوں سے لٹکنے کی اجازت ہے نہ اورلوڈنگ کی۔ مسافر ہوں یا خالی، ٹرین وقت پر چلتی ہے اور مقررہ وقت پر منزل پر پہنچ جاتی ہے۔
دراصل عوام جب تک پبلک اثاثے کو ذاتی جاگیر سمجھ کر محفوظ نہ رکھے یا احکامات پر عمل نہ کرے ذاتی اثاثے کا دکھاوا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
کرونا سے بچنے کے احکامات پر سختی سے عمل کرنے کا ہنر کوئی ان لوگوں سے سیکھے۔ فیس ماسک پہننا، فاصلے پر رہنا یا ڈیڑھ سال سے قریبی رشتوں سے دور رہنے پر سختی سے عمل کرنا، اس کی بدولت ہی یہاں کسی حد تک وائرس پر قابو پا لیا گیا ہے اور لاک ڈاؤن میں اب نرمی برتی جا رہی ہے۔
میں جب خالی ٹرین میں بیٹھ کر لیڈز پہنچی تو کہیں پر کوئی نظر نہیں آیا جیسے پورا شہر سو گیا ہے حالانکہ یہاں ایشیائی باشندوں کی بڑی آبادی کی وجہ سے خاصی چہل پہل رہتی ہے۔
سٹیشن سے پھر خالی بس میں سوار ہو کر جب میں بریڈفرڈ کے بازار میں رکی تو اشیا ضروریہ یا ریستوران کی چند دکانیں کھلی تھیں جن میں زیادہ تر ایشیائی تارکین وطن کی تھیں۔
ایک دکان میں چند لوگ وزیر اعظم عمران خان کے عوام کے سوال و جواب کا پروگرام ٹیلی ویژن پر دیکھ رہے تھے۔
تیرہ سال قبل جب میں نے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بی بی سی کے ٹاکنگ پوائنٹ پروگرام میں عوام کا ان سے براہ راست سوال جواب کا پہلا تجربہ کیا تھا تو وہ کافی کامیاب رہا۔ اسی پروگرام میں جنرل مشرف نے اپنی وردی اتارنے کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’وردی میری کھال ہے جس کو میرے مرنے کے بعد ہی اتارا جاسکتا ہے۔‘ مگر ایک سال کے بعد ان کے وردی رہی نہ صدارت اور نہ جی ایچ کیو میں تین عہدے رکھنے کی وہ شان و شوکت۔
آج اس طرز کا پروگرام بریڈفرڈ کے اس دکان میں ٹیلیویژن پر دیکھنے کا جب موقع ملا تو میں یہاں موجود لوگوں میں وہی تجسس، فکر اور وطن کے تئیں جذبہ محبت کو محسوس کر رہی تھی۔
مگر مجھے یہ مودی کی ’من کی بات‘ کا پاکستانی روپ لگا۔
دکان میں ایک میز کے اردگرد بھارت اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے پانچ چھ لوگ بیٹھے غور سے پروگرام دیکھ رہے تھے۔ میں نے چاکلیٹ اور پانی کی بوتل خریدنے کا بہانہ کیا اور ان کی باتیں انہماک سے سننے لگیں۔
ظاہر ہے کہ اندر کا صحافی جو جاگ گیا تھا۔
ایک نوجوان کہہ رہا تھا کہ ’تمہارا مودی بھی تو ایسے ہی وعدے کرتا رہتا ہے ایک وعدہ بتاؤ جو اس نے پورا کیا ہو۔‘
’مودی نے آر ایس ایس سے جو بھی وعدے کیے تھے وہ تو اس نے پورے کیے۔ بھارت کو آر ایس ایس کے رنگ میں خوب نہلا رہا ہے اور عوام کو ہندو روٹی کھلا کر موٹا کرتا جا رہا ہے۔‘
دوسرے نوجوان نے ذرا تیش میں آ کر جواب دیا۔ ’ہمارے کپتان اور آپ کے مودی میں ایک مماثلت ہے۔ مودی اگر بڑا جملہ باز ہے تو عمران اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ این آر او کی ایسی رٹ لگا رکھی ہے کہ مودی کو بھی جملہ بازی میں ہرا چکا ہے۔ مگر آپ کو ان کی باتوں سے گھبرانا نہیں ہے۔‘ نوجوان کی اس بات پر سب زور سے ہنس پڑے اور اسی وقت عمران سے کوئی خاتون کہہ رہی تھی کہ ’اب ہمیں گھبرانے کی اجازت بھی دے دیں۔‘
سب کا قہقہہ چند سیکنڈ کے لیے رک گیا اور پھر سب اتنے زور سے ہنس پڑے کہ جیسے بھونچال آگیا ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیچھے سے ایک اور بزرگ کی آواز آئی جن کے ماتھے پر لال ٹیکہ تھا۔ وہ کہنے لگے ’عمران تو پچھلی گلی سے نکل کر بنی گالہ پہنچ جاتے ہیں مگر مودی سادھو کے بھیس میں کسی گپھا، پہاڑ یا مندر میں جا کر مون بھرت یعنی خاموش بیٹھ جاتے ہیں تاکہ قوم کے لیے دعا کر سکیں کیونکہ کام کرنے کے تمام ادارے تو انہوں نے پہلے ہی مفلوج کر دیئے ہیں۔ ایک ارب ہندو سمجھتے ہیں کہ پہلی بار بھارت کو مہان سادھو ملا ہے جو پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کی تلاش میں کرونا، کینسر، بیروزگاری، غربت اور اقتصادی مندی کا علاج یوگا، مون بھرت اور گاو موتر میں ڈھونڈ رہا ہے۔‘ اس پر ایک اور بڑا قہقہہ پھوٹ پڑا۔
میں نے کاؤنٹر پر موجود سیلز مین سے پوچھا کیا یہاں موجود ان لوگوں میں کوئی شخص کشمیری بھی ہے تو انہوں نے نفی میں سر ہلا کر کہہ دیا ’ہم سب ہندوستان اور پاکستان کے پنجاب اور گجرات سے ہیں۔ مذہب کے سوا ہمارا سب کچھ ایک جیسے ہے، ہم ایک ہی طرح کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ مودی اور عمران خان سے کیا لینا، منحت مزدوری کر کے پردیس میں اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ چند پیسے گھر بھی بھیجتے ہیں۔ ایک دوسرے کی قربت میں رہ کر وطن کی بربادیوں اور لیڈروں کی پالیسیوں پر ماتم کرتے ہیں جو کبھی جنگی جنون پیدا کر کے ووٹ لیتے ہیں یا کبھی ماضی کو بھلانے پر کنفیوژن میں مبتلا کرتے ہیں۔‘
چند سیکنڈز خاموش رہنے کے بعد وہ مجھ سے پوچھنے لگے ’کیا آپ کشمیری ہیں؟‘
میں نے ہاں میں سر ہلایا تو وہ کہنے لگے کہ ’آپ کو بس گھبرانہ نہیں ہے، عمران خان ہیں نا۔‘ وہ یہ کہتے ہوئے ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور دکان میں موجود دوسرے نوجوان بھی میرے اردگرد جمع ہوگئے۔ بزرگ شخص دور سے کہنے لگے ’آپ کو بہت زیادہ گھبرانے کی ضرورت ہے کیونکہ مودی نے اگر پھر کسی گپھا میں جا کر اور کوئی پاٹھی کرم کیا تو شاید کشمیر ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہی غائب ہوجائے گا۔ اس کا جادو ایسا پراثر ہے کہ لگتا ہے ممتا بینرجی بھی ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچنے والی ہیں۔‘
وہ سب پھر مذاق اڑا اڑا کر مزے لے رہے تھے۔
ایک اجنبی ملک میں دونوں ملکوں کے تارکین وطن کی باتیں سن میں سوچ رہی تھی کہ کیا بریڈفرڈ کی یہ کھلی فضا برصغیر کی سڑکوں پر کبھی نظر آئے گی یا منافرت کا وائرس ہم سب کو نگل کر اتنا زہر آلودہ کر دے گا کہ ’ماضی کو بھولنے کا سبق‘ بھی ایک نئے طوفان کا آغاز تصور کیا جائے گا۔
میں تفریح کے چند لمحات حاصل کر کے وہاں سے چل دی اور پھر خالی ٹرین میں بیٹھ کر خود کو تسلی دے رہی تھی کہ ’گھبرانہ نہیں چاہیے عمران خان ہے نا۔‘