بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ یہ محاورہ پاکستان کی سیاست پر بالکل پورا اترتا ہے۔ اب دیکھیے پچھلے کچھ دنوں سے کیا صورت حال بنی ہوئی ہے۔
حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے اندر دو دھڑے بن گئے ہیں۔ ایک تو اس شخص کے لیے جس کا نام شوگر انکوائری رپورٹ میں آیا اور جسے وزیر اعظم کا الیکشن کے دوران، اس سے پہلے اور بعد بھی رائٹ ہینڈ کہیں گے یعنی جہانگیر ترین جن کے بارے میں طے تھا کہ ڈپٹی وزیر اعظم ہوں گے۔
جہانگیر ترین تو کرتا دھرتا تھے؛ الیکشن ٹکٹس یا وزیر اعظم تک رسائی، سیاسی حکمت عملی یا اسٹیبلشمنٹ رابطے یا مسلم لیگ ن کی توڑ پھوڑ اور بہت سے پارٹی اراکین کی ’دیکھ بھال‘ یہ سب جہانگیر ترین ہی کرتے تھے۔
یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اپنی مالی حیثیت کی بنا پر انہوں نے بہت سوں کی پی ٹی آئی میں ’مدد‘ کی اور سیاسی گاڈ فادر بنے ہیں۔
پھر ذاتی تناؤ اور کشیدگی عمران خان کے ارد گرد کے طاقتور لوگوں میں یقینی تھی۔ مثلا اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹانے میں جہانگیر ترین کا کردار اور وزیر اعظم کے بڑے فیصلوں میں بھی - حد یہ کہ ایک مرتبہ وزیر اعظم ہاؤس میں ایک اجلاس ہو رہا تھا جس میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان بھی بیٹھے تھے۔
اس میٹنگ کے دوران ایک ایسا لمحہ بھی آیا کہ وزیر اعظم کے قابل اعتماد شخص پرنسپل سیکریٹری جن پر وہ بے انتہا انحصار کرتے ہیں انہوں نے جہانگیر ترین کو یہ کہا کہ ’you are not a prime minister he is the Prime Minster.’
ترین۔ اعظم خان کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ چونکہ جہانگیر ترین اپنے آپ کو وزیر اعظم کی ٹیم کا ایک بہت اہم رکن تصور کرتے تھے اور اپنی ایک پوزیشن بنا رہے تھے جس پر ان کا تصادم اعظم خان سے براہ راست ہو رہا تھا۔
یہ کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔ یہ ایک گروہ بندی تو ہر سیاسی جماعت میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اسد عمر - ترین کشید گی، اس سے مختلف تھی۔
ترین - اعظم خان میں ’پاور کلیش‘ بڑھتا گیا۔ جہانگیر ترین کی منتخب حیثیت نہیں تھی اور وہ اپنا کردار بڑھاتے ہوئے اعظم خان کی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔
کون رہے گا وزیر اعظم کا راز دان اور قریب ترین مشیر؟ یوں ایک طبل جنگ بجنا ہی تھا۔ لیکن اس طاقت کی جنگ میں اعظم خان ایک بیوروکریٹ جن پر عمران خان اور ان کے کچھ خاص لوگ بےحد بھروسہ کرتے تھے، ان کا پلڑا بھاری تھا۔ جہانگیر بنا ہتھیار مقابلے میں کود پڑے۔ انہیں شاید کچھ اسٹیبلشمنٹ سے بھی توقع تھی اور خان کے پرانے بھروسے پر بھی۔
اعظم خان نے نہ صرف وزیر اعظم سے قربت اور نہ پرنسپل سیکریٹری کی حیثیت سے اپنی طاقت کو کم ہونے دیا۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ڈی جی آئی بی بھی اعظم خان کے دوست رہے۔
پھر ایسی بھی افواہ چلی کہ وزیر اعظم ہاؤس میں جو جیسی رپورٹ چاہے آ جاتی ہے اور بنائی جاسکتی ہے۔
اس پس منظر میں احتساب میں وفاقی تحقیقاتی ادارے یا ایف آئی اے کو پی ایم آفس سے متحرک کیا گیا اور کنٹرول شہزاد اکبر کو ملا۔ پی ایم کے کہنے پر چینی کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں اور درآمد برآمد کے حیران کن معملات پر انکوائری کروائی گئی۔
پچھلے سال مئی میں تفصیلی رپورٹ سامنے آئی۔ یہ رپورٹ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا نے بنائی جو شہزاد اکبر کے ماتحت ہیں۔
وہ رپورٹ جب بنائی گئی تو یہ کہا گیا کہ وزیر اعظم نے کہا ہےکہ جتنا بڑا بھی شخص ہو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
رپورٹ کے بعد سے جہانگیر ترین نے نہ صرف اس پر تنقید کی بلکہ جو انکوائری کمیٹی تھی اس کے بارے میں بھی کہا کہ یہ نااہل کمیٹی ہے۔
ان کا اصرار تھا کہ جس نے رپورٹ بنائی ہے اس میں بےبنیاد الزامات لگائے ہیں اور ’لگتا ہے کہ کوئی ذاتی طور پر میرے خلاف ہے کیونکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب جہانگیر ترین ملک سے کچھ عرصے چلے جانے کے بعد واپس لوٹے تو رپورٹ پر اگلے ایکشن کی تیاری ہو رہی تھی۔
پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ ہفتہ قبل جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئیں۔ ایف آئی آر جو کٹی تو اس کے بعد عدالتوں میں بھی ان کی پیشی ہوئی۔
جہانگیر ترین انکوائری کمیٹی کے خلاف چارچ شیٹ لے کر آئے۔ انہوں نے بڑے دوٹوک انداز میں کہا کہ 80 میں سے ایک میری شوگر مل کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے۔ ’یقینا کچھ لوگ نہ صرف میرے دشمن ہیں بلکہ پارٹی اور حکومت کے بھی دشمن ہیں۔‘
جہانگیر ترین نے یہ بھی دکھا دیا کہ ان کے ساتھ لوگ ابھی ہیں۔ عدالت جاتے ہوئے بھی ان کے ساتھ لوگ تھے اور جب انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر کھانے کا انتظام کیا تو وہاں بھی پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی پہنچے۔
اب اصل میں جہانگیر ترین اور شوگر مافیا کے خلاف بننے والی رپورٹ سیاست کا شکار ہوگئی ہے۔ جہانگیر ترین رپورٹ بنانے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ لوگ نالائق بھی ہیں اس لیے اس طرح کی کمیٹی کی رپورٹ کو نہیں مانتے۔
لگتا ہے کہ حکومت کے اندر خانے بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ناجائز ہے اس پر نظرثانی کی جائے۔ وزیر اعظم کو ملنےکے لیے بھی درخواست کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے کہنے پر ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پچھلے 24 گھنٹوں میں یہ بھی بیان دے دیا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کو شکایت ہے وہ وزیر اعظم سے جا کر ملیں۔
عمران خان کی طرف سے شہزاد اکبر یہ کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم بلیک میل نہیں ہوں گے اور احتساب کے عمل میں دوستیاں آڑے نہیں آئیں گی۔
اس رپورٹ کے نتیجے میں کیا بنتا ہے کہ چینی سستی ہوتی ہے یا نہیں یا جن کو ایک قانون کے تحت سبسڈی دی گئی ہے ان سے یہ واپس لی جائے گی یا نہیں۔
ان سب چیزوں پر تو آگے جا کر پتہ چلے گا لیکن فی الوقت جہانگر ترین اور شہزاد اکبر /اعظم خان آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔
جہانگیر ترین نے بہت ادوار دیکھے ہیں اور طاقت کے اکھاڑے میں وہ بہت کھیلے ہیں وہ اب کچھ منوائے بغیر شاید پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
آنے والے دنوں میں سیٹ بیلٹ باندھے پی ٹی آئی کے اندر بڑی ’رف رائیڈ‘ ہو سکتی ہے۔ اس دوران جو دو سب سے زیادہ ایکٹو لوگ دکھائی دیں گے وہ شہزاد اکبر اور جہانگیر ترین ہیں۔
شہزاد اکبر کے ساتھ اعظم خان ہیں اور جہانگیر ترین کے ساتھ کچھ پارٹی کے لوگ ہیں۔ مقتدر حلقے بھی جہانگیر ترین کو پرانے تعلقات کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔
سب کی نظریں عدالت پر ہیں۔ جہانگیر ترین پی ایم کی مداخلت بھی چاہتے ہیں۔ قانونی گتھیاں تو عدالت کے ہاتھ میں ہیں لیکن محلاتی سازشیں، اگر ہیں تو کیا عمران خان سنبھال پائیں گے؟
ان سب معملات کے باوجود عمران خان نے چینی کے کاروبار میں دیرینہ کر پشن اور فراڈ کو ختم کرنے کا جو بیڑا آٹھایا ہے اسے قانون اور حقائق کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پائے تکمیل تک پہنچانا ہو گا۔
حکومت کو لوگوں کو باور کروانا ہے کہ ترین کے خلاف ایف آئی آر قانونی جواز رکھتی ہیں اور ترین - اعظم خان جنگ و جدل کا حصہ نہیں-