سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ میں اپنے دلائل کے دوران کہا کہ حکومت کیس لٹکانے کی کوشش کر رہی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس دکنی بینچ نے جمعرات کو جسٹس قاضی فائز عیسی کی اپیلیوں پر سماعت کی، جس کے دوران جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’حکومت چاہتی ہے جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکایا جائے،‘ جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے لیے یہ حساس ترین کیس ہے۔‘
سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آف شور پراپرٹی تسلیم شدہ حقیقت ہے اور بیرون ملک جائیداد سے انکار نہیں کیا گیا۔ عدالت نے درست طور پر تحقیقات کا حکم دیا تھا جبکہ ایف بی آر کو ٹائم فریم معاملے کی حساسیت کی وجہ سے دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کو سماعت کا پورا موقع دیا گیا تھا۔ ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے۔ باضابطہ سماعت کا طریقہ کار کیا ہوگا یہ تعین کرنا عدالت کا کام ہے۔
اس موقعے پر جسٹس منصور علی نے عامر رحمٰن سے مخاطب ہوکر کہا: ’آپ جس عدالتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ زیر سماعت مقدمے سے مختلف ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس اکثریتی ججز نے خارج کر دیا تھا لیکن گھر میں بیٹھی جج کی فیملی کےخلاف کارروائی شروع ہو گئی۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایف بی آر خود کارروائی شروع کر سکتی ہے یا نہیں یہ ہمیں معلوم نہیں لیکن ایف بی آر نے جج صاحب کے اہل خانہ کےخلاف تحقیقات ہمارے حکم کی روشنی میں شروع کیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس ’اے‘ کے خلاف تھا اور کارروائی ’بی‘ کے خلاف شروع ہوگئی۔ ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ کسی ایسے کیس کی قانونی مثال دیں کہ کیس خاوند کے خلاف ہو اور کارروائی ان کی اہلیہ کے خلاف شروع ہو جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومتی وکیل نے ان سوالات کے جواب میں بتایا کہ آف شور جائیدادوں کے خلاف ایف بی آر کارروائی نہ کرتا تو توہین عدالت کا مرتکب ہوتا۔
اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیتا تو بات درست تھی لیکن ایف بی آر کو تحقیقات کرنے کا حکم سپریم کورٹ کی طرف سے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تو وہ اختیار استعمال کیا جو سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے حکومتی وکیل سے کہا کہ عدالت کو ان نکات پر معاونت فراہم کریں۔
جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہا کہ سرینا عیسیٰ کے لیے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی تھا۔ عدالت نے سرینا عیسیٰ کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔ سماعت کی ضرورت کسی کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے ہوتی ہے۔ کیس ایف بی آر کو بھجوانے سے پہلے بھی سرینا عیسیٰ کو سنا گیا تھا۔
تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل کے دوران مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے کوئی نظر ثانی درخواست دائر نہیں کی تھی۔ ’ایف بی آر کا معاملہ میری اہلیہ اور ادارے کے درمیان ہے۔ حکومت صرف کیس لٹکانے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکایا جائے۔‘
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس منظور ملک رواں ماہ 30 اپریل کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے اور اگر تب تک کیس جاری رہتا ہے تو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بینچ ٹوٹ جائے گا، جس کے بعد نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا اور ان کی جگہ دوسرا جج بینچ میں شامل کیا جائے گا۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سرینا عیسیٰ نے سماعت نہ ہونے کے حوالے سے قانونی حوالے نہیں دیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ ’میرے دلائل پر اعتراض کیا جارہا ہے۔ ایسا ہی کرنا ہے تو ہم سے تحریری دلائل لے لیے جائیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میرے کنڈکٹ پر بات کی ہے۔‘
جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’دلائل پر اعتراض نہیں ہمیں آپ کی معاونت چاہیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات غیر مناسب تھی۔‘ اس پر جسٹس منظور ملک نے بھی کہا کہ ’عامر رحمٰن صاحب آپ اچھے انسان اور وکیل ہیں، بات ختم کریں۔‘
دوران سماعت ججز کے مابین تلخی
سماعت شروع ہونے کے گھنٹے بعد جسٹس منیب اختر اور جسٹس مقبول باقر میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، جس کی وجہ سے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ساتھی ججز کو تحمل کا مظاہرہ کرنےکا مشورہ دیا اور سماعت میں 10 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
دس منٹ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس کافی ہوتا ہے۔ روزے کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لےکر آئے ہیں۔‘
وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز
سماعت کے دوبارہ آغاز پر حکومتی وکیل نے کہا کہ اگر جسٹس مقبول باقر کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا: ’جسٹس مقبول باقر بینچ کے پسندیدہ ہیں۔‘
جسٹس مقبول باقر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’آپ کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔‘ حکومتی وکیل نے دلائل کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے بتایا کہ وہ آرٹیکل187 کے تحت سپریم کورٹ کے اختیارات پر بات کریں گے۔ حکومتی وکیل کے دلائل کے درمیان جسٹس فائز عیسیٰ نے مداخلت کی کوشش کی تو جسٹس منظور ملک نے انہیں کہا کہ ’قاضی صاحب آپ کی بہت مہربانی بیٹھ جائیں۔ بار بار کارروائی میں مداخلت نہ کریں۔‘
عامر رحمٰن نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ سرینا عیسیٰ کا کیس ایف بی آر کو نہیں بھیجا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے اختیارات پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔ حج کرپشن کیس ملزمان کو سنے بغیر تحقیقات کے لیے بھیجا گیا تھا اور سرینا عیسیٰ کا موقف تو عدالت نے ویڈیو لنک پر سنا تھا۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں نہیں کہا گیا کہ سرینا عیسیٰ کا کیس آرٹیکل 187 کے تحت ایف بی آر کو بھیجا گیا۔ مکمل انصاف کا تقاضا ہے کہ کیس کو جلد مکمل کیا جائے۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے عامر رحمٰن سے استفسار کیا کہ ’آپ کو دلائل مکمل کرنے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا؟ کوشش کریں گے کہ کل ڈیرھ گھنٹہ کیس کی سماعت کریں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’ججز کچھ وضاحت چاہتے ہیں تو سوال بھی کریں گے۔ وقت محدود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو موقف دینے سے روکیں۔ سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہم جذباتی نہ ہوں۔ سپریم کورٹ کے لیے یہ حساس ترین کیس ہے۔‘
حکومتی وکیل نے جواب دیا کہ ’حامد خان نے جو نکات اٹھائے ہیں ان کا جواب دوں گا اور کوشش کروں گا کہ کل اپنے دلائل مکمل کرلوں۔‘
اس کے ساتھ ہی عدالت نے ٹیکس کمشنر ذوالفقار احمد کا حکم جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا نظر ثانی میں ہم ٹیکس کمشنر کا حکم دیکھ سکتے ہیں،‘ جس کے بعد مزید دلائل کے لیے سماعت جمعے (23 اپریل) تک ملتوی کر دی گئی۔