روشن خیالی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود ہالی وڈ میں نسل اور قوم پرستانہ کرداروں پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔ یہ پہلو دیکھنے والوں کے اندر موجود عصبیت کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔
ہالی وڈ کی فلموں میں مسلمانوں، بالخصوص عربوں کے بارے میں دیرینہ اور گھسے پٹے دقیانوسی خیالات اور بعد ازاں نائن الیون کے واقعات کی کوریج دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے حالیہ رحجان میں تیز رفتار اضافے کا باعث بنی ہے۔ نائن الیون کے بیس سال بعد مسلمانوں کے خلاف منافرت آج ہراسیت کی تمام حدود پار کر چکی ہے۔
اسلاموفوبیا کی سوچ نے مغرب میں خاص طور پر دنیا کے کچھ سیکولر ممالک میں عمومی طور پر خطرناک صورت حال اختیار کر رکھی ہے۔ اس حوالے سے بعض مغربی میڈیا نے بھی نامناسب کردار ادا کیا اور اپنے معاشرے کو اسلام کی ایک غلط اور خوفناک تصویر پیش کی ہے۔
نائن الیون کے بعد اکثر مغربی اخبارات میں اس قسم کی خبریں اور رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں جن میں مسلمانوں کو عالمی معاشرے میں انتہا وشدت پسندی اور تناؤ کا سبب قرار دیا گیا ہے اور یہ سب بعض عناصر کی کم عقلی اور عالمی سطح پر متعصب اور منظم منصوبہ کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔
اسی نادانی کے باعث فلسطین، بھارت کے زیر انتظام کشمیر، میانمار اور دیگر علاقوں میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے اور اپنے مذہب، سرزمین، عزت اور ناموس کی حفاظت کرنے والے دہشت گردوں کی شکل میں پیش کیے جاتے ہیں جبکہ بعض ممالک خاص طور پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، ان پر تشدد، ظلم اور جبر روا رکھا جاتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی نامناسب تصویر پیش کرنے کے باعث اس کے مضر اثرات آج پوری دنیا کے مسلمانوں پر جاری ظلم، زیادتی، تشدد اور ان کے مقدسات کی تضحیک کرنے سے ان کے جذبات اور احساسات کو مجروح کرنےکی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
افسوسناک طور پر بالعموم انسانیت اور بالخصوص مسلم امہ کو درپیش اسلاموفوبیا کے مظاہر کو بعض مذہب بیزار اور کم فہم افراد نے ایک تحریک اور نظریے کی شکل دینے کی بھی کوشش کی ہے جس سے اب دنیا اضطراب کا شکار ہے۔
ان عناصر نے اسلام کے معاشی و سیاسی نظام، تہذیب و تمدن او ثقافت کو سمجھے بغیر مسلمانوں اور اسلام سے نفرت اور تعصب روا رکھنے کا نامناسب رویہ اپنا رکھا ہے اور لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں۔
نائن الیون کے بعد کتنا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔ اس دوران تین امریکی صدور طالبان سے مصالحت کے لیے مذاکرات کی میز سجا چکے ہیں۔ چند روز قبل ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے امسال ستمبر میں افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب امریکی قیادت میں اتحادی فوج کی تعداد کو خاطر خواہ جانی اور مالی نقصان کے بعد عراق میں بھی بتدریج کم کیا جا رہا ہے۔
2001 میں عربوں سے متعلق شائع ہونے والی کتاب ’ہالی وڈ کیسے لوگوں کو بدنام کرتا ہے؟‘ شائع ہوئی جس میں مصنف جیک شاہین نے ان طریقوں پر روشنی ڈالی جن کے ذریعے ہالی وڈ فلم ساز اپنی فلموں میں عربوں کو بدنام کرتے ہیں۔ امریکہ ہجرت کر کے آنے والے لبنانی عیسائی خاندان میں پیدا ہونے والے جیک شاہین کی اس شہرہ آفاق تحریر پر بہت لے دے ہوئی۔
مغربی دنیا کی فلمی صنعت میں دقیانوسی خیالات کا فروغ دراصل نائن الیون کے بعد نفرت آمیز جرائم میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ کتاب لکھنے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے جیک شاہین نے کہا کہ ’جب آپ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو بدنام کرتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر معاشرے کے عام مردوں، خواتین اور بچوں پر یکساں طور پر پڑتا ہے۔‘ انھوں نے نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی تباہی وبربادی کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت بھی فلموں ہی کے ذریعے یہودیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی گئی جس کے بعد ہولوکاسٹ کی بساط بچھائی گئی۔
کتاب کے اختتام پر مصنف شاہین لکھتے ہیں ’کہ عربوں کو جب آپ ہالی وڈ کی عینک سے دیکھیں گے تو وہ ہمیشہ خطرناک اور پس ماندہ دکھائی دیں گے۔‘ یونیورسٹی آف الینوائے میں پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے جیک شاہین اپنے لیکچرز کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف گھسے پٹے تعصبات پر قابو پانے کے طریقے سجھاتے ہیں۔ انھوں نے امریکہ میں مقیم عربوں کو صحافت میں شمولیت پر آمادہ کیا تاکہ ان سے متعلق دقیانوسی نوعیت کا پروپیگینڈا ختم کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہالی وڈ کی دنیا کا ایک تلخ سچ یہ ہے کہ روشن خیالی کے اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود یہ نسل اور قوم پرستانہ کرداروں پر ہی انحصار کرتی ہے اور یہ پہلو دیکھنے والوں کے اندر موجود عصبیت کو مزید فروغ دیتا ہے۔ یہ اس وقت زیادہ واضح ہو جاتا ہے جب ہالی وڈ کی کسی فلم کے لیے ’وِلن‘ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
کتاب کی اشاعت پر ’ٹائمز‘ میگزین میں تبصرہ کرتے ہوئے معروف نقاد رچرڈ سکیچل نے کہا ’کہ سوویت یونین کے زوال اور سرد جنگ کے خاتمے پر ہالی وڈ نے عربوں کو اپنی فلموں میں بطور ’ولن‘ کاسٹ کرنا شروع کر دیا۔
اگرچہ سرد جنگ کا اختتام کئی دہائیوں قبل ہو چکا ہے لیکن موجودہ دور میں سکرین پر جو کچھ اس حوالے سے دکھایا جاتا ہے اس کے مطابق روس اب بھی برے لوگوں کا ہی مسکن ہے اور جرمن تو ہوتے ہی اُجڈ گنوار ہیں۔ اس کی ایک وجہ جنگ عظیم دوئم سے اب تک بڑی تعداد میں برے جرمن نازیوں کا ٹی وی پروگرامز میں شرکت کرنا بھی ہے۔
ہالی وڈ کی جن فلموں نے عربوں کی شناخت برباد کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں ’عربوں کی راتیں‘ نامی فلم باکس آفس پر ہٹ رہی۔ اس فلم میں خلیفہ ہارون الرشید کو ہوس پرست معاشرے کا فرد دکھایا گیا۔ ’رولز آف انگیجمنٹ‘ نامی فلم کا مرکزی خیال یمن میں جاری خانہ جنگی تھی، جس میں عربوں کو بربریت کا ارتکاب کرتے دکھایا گیا۔ ’گنڈم آف ہیون‘ فلم میں عرب مسلمانوں کا مثبت امیج دکھایا گیا۔
ہالی وڈ فلموں میں منافرت اور تعصب سے بھرپور حملوں کے باوجود بین الاقوامی برادری سے تعلق رکھنے والے گنے چنے فنکار مسلمانوں اور اسلام کے دفاع میں دست تعاون دراز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جارج کلونی اس میدان میں نمایاں نام ہیں۔
ایک پاپولر ٹی وی شو کے دوران اسلام کے خلاف کیے جانے والے حملوں کا جواب دیتے ہوئے امریکی اداکار اور ہدایت کار بین ایفلک نے تاریخی جملہ ادا کیا کہ ’ہم نے جو مسلمان ہلاک کیے ہیں ان کی تعداد مسلمانوں کے ہاتھوں تہہ تیغ ہونے والے مغربی دنیا کے افراد سے زیادہ ہے۔‘
جیک شاہین نے اپنی تحریروں کے ذریعے جس پیغام کی ترویج شروع کی تھی، اس کا پھل ملنا شروع ہو گیا ہے۔ ’مون لائٹ‘ میں کردار پر بہترین معاون اداکار ماہر شالا علی نے 2017 میں آسکر حاصل کیا اور اس کامیابی کے ساتھ آسکر ایوارڈ جیتنے والے پہلے مسلمان کے طور پر تاریخ کا حصہ بنے۔ پہلے مسلمان ماہر شالا کو آسکر ایوارڈ ملنا جیک شاہین کے پیغام کا اعتراف ہے۔
دوسرے مسلمان فنکار بھی اپنی صلاحتیوں اور وجاہت کی بنا پر امریکی فلمی صنعت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ جرمن نژاد مصری فنکار عمر متولی ایسے ہی کامیاب مسلمان فنکاروں میں شامل ہیں۔ اس نوعیت کی کامیابی اور اعتراف درست سمت میں اہم قدم ہے جس سے ہالی وڈ میں عربوں اور مسلمانوں کا مقدمہ درست تناظر میں پیش کرنے میں مدد مل رہی ہے۔