سندھ بھر میں ایچ آئی وی کا پراسرار پھیلاؤ: تازہ صورتحال کیا ہے؟

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق پاکستان میں موجود کُل ایچ آئی وی کیسز میں سے 43 فیصد صرف سندھ میں ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ صحت کے شعبے کو بہتر بنانے میں حکومت پاکستان کی ہر ممکن مدد کرے گا ۔ فائل تصویر: اے ایف پی

سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی تحصیل رتو دیرو کے رہائشی پولیس کانسٹیبل محمد یعقوب دایو نے چار ماہ قبل اپنے نو مہینے کے پوتے عزادار حسین کو مسلسل رہنے والے بخار اور نمونیہ کی وجہ سے مقامی ہسپتال میں داخل کرایا۔ 25 دن علاج کے باوجود بخار اور نمونیہ ٹھیک نہیں ہوا تو ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ تجویز کیے۔ ٹیسٹ کے رزلٹ میں بتایا گیا کہ ان کا شیر خوار پوتا ایچ آئی وی پازٹیو ہے۔

وہ علاج کے لیے پوتے کو لاڑکانہ شہر لے گئے مگر شدید نمونیہ کے باعث ان کے پوتے نے دم توڑ دیا-

محمد یعقوب دایو نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا: ’پوتے کی طعبیت خراب ہونے پر میں نے اسے ڈاکٹر مظفر گھانگھرو کے نجی ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کرایا جہاں ڈاکٹر مظفر روزانہ چار سے پانج انجیکشن لگاتے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ بیماری میرے پوتے کو وہیں سے لگی۔‘

حال ہی میں لاڑکانہ اور رتوڈیرو میں بڑی تعداد میں ایچ آئی وی پازٹیو کیسز مقامی میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

کچھ اخبارات میں ڈاکٹر مظفر گھانگھرو پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے نجی ہسپتال میں علاج کے دوران ایک ہی سرنج سے سب مریضوں کو انجیکشن لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایچ آئی وی کے اتنے کیسز سامنے آئے۔  

ان خبروں کے بعد ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ نعمان صدیقی کے احکامات پر ڈاکٹر مظفر گھانگھرو کو ایچ آئی وی پھیلانے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا جو اس وقت عدالتی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں، تاہم انہوں نے پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں تمام الزامات کی تردید کردی۔

لاڑکانہ میں بڑی تعداد میں ایچ آئی وی پازٹیو کیسز کی خبریں آنے کے باوجود ضلعی انتظامیہ کیسز کی کُل تعداد نہیں جانتی۔

انچارج ایڈز کنٹرول پروگرام ڈاکٹر ہولا رام نے انکشاف کیا کہ 25 جون 2007 سے اب تک شمالی سندھ کے آٹھ اضلاع میں 2488 کیسز ایچ آئی وی پازٹیو کے رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔

ان میں سے اکثر کیس لاڑکانہ میں رجسٹر ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’حالیہ دنوں میں ہماری سکریننگ کے دوران 144 کیسز پازٹیو آئے جن میں 129 چھوٹے بچے شامل ہیں۔‘

حال ہی میں سندھی اخبارات نے رپورٹ کیا کہ صرف رتوڈیرو میں ایچ آئی وی کے 212 کیسز سامنے آئے ہیں، جب کہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے انچارج ڈاکٹر سکندر میمن نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 24 اپریل سے 8 مئی تک 4703 لوگوں کی سکریننگ کی گئی جن میں سے 85 پازٹیو آئے۔

پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹو (پی پی ایچ آئی) جیکب آباد کے انچارج (پیتھالوجسٹ) ڈاکٹر عبدالحفیظ، جنہیں لوگوں کی سکریننگ کے لیے رتوڈیرو بلایا گیا ہے، کے مطابق 24 اپریل سے 8 مئی تک صرف رتوڈیرو میں 230 لوگوں میں ایچ آئی وی پازٹیو تشخیص ہوجکا ہے۔ ان میں اکثریت چھوٹے بچوں کی ہے۔  

انہوں نے مزید کہا کہ خیرپور میں پانچ اور شکارپور میں دو کیسز پازٹیو آ چکے ہیں۔

رتوڈیرو میں نجی ہسپتال چلانے والے ڈاکٹر عمران عاربانی، جن کا دعویٰ ہے کہ رتو دیرو میں پہلا کیس ان کے پاس رپورٹ ہوا تھا، کہتے ہیں کہ صرف رتو دیرو میں ایچ آئی وی پازٹیو کیسز کی تعداد 212 سے زائد ہے۔

ڈاکٹر عمران کے مطابق: ’صرف میرے کلینک میں 53 کیسز پازٹیو آئے ہیں جن کے لیبارٹری ٹیسٹ کے رزلٹ بھی میرے پاس موجود ہیں۔ اگر پورے سندھ میں سکریننگ کی جائے تو ایچ آئی وی کیسز کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سرکاری افسران کیسز کی تعداد کم بتارہے ہیں تاکہ حکومت کی بدنامی نہ ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے کئی مریضوں کے ٹیسٹ آغا خان ہسپتال کراچی سے پازٹیو آئے مگر سندھ حکومت کی جانب سے کی گئی سکریننگ میں ان کو نیگیٹیو دکھایا گیا ہے۔

ضلع لاڑکانہ میں اتنی بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کیسز سامنے آمنے آنے کے باوجود مریضوں کو علاج کے حوالے سے مسائل درپیش ہیں۔ عرضی بھٹو گاؤں کے رہائشی وحید جلبانی نے بتایا کہ ان کی ایک سال کی بیٹی آصفہ کو ایچ آئی وی تشخیص ہوچکا ہے مگر کسی بھی سرکاری ہسپتال میں ان کی بیٹی کو داخل نہیں کیا جارہا۔

لاڑکانہ کے چانڈکا میڈیکل سینٹر میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کے لیے سینٹر بنادیا گیا ہے، مگر مریضوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہاں صرف مریض کو داخل کرلیا جاتا ہے مگر کوئی علاج نہیں ہوتا۔

خیرپور میرس میں بھی میڈیا میں خبریں آنے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد سرکاری ہسپتالوں میں سکریننگ کرانے پہنچی۔

خیرپور میرس کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر حسین ابڑو نے تصدیق کی کہ ضلع میں حال ہی میں چار کیسز ایچ آئی وی پازٹیو آئے، جن میں دو مرد اور دو خواتین شامل ہیں۔ خواتین میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں جو علاج کی غرض سے لاڑکانہ میں ہیں۔

ڈاکٹر حسین ابڑو نے مزید کہا: ’اخبارات میں خبریں شائع ہونے کے بعد ہم نے سکریننگ شروع کی، مگر ہمارے پاس ٹیسٹ کرنے کے لیے میڈیکل کٹس نہیں ہیں جس کے باعث ہم سب لوگوں کی سکریننگ نہیں کرسکتے۔‘

لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کیسوں کی میڈیا میں کوریج کے بعد شکارپور ضلع میں بھی بڑی تعداد میں لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے ٹیسٹ کرانے سرکاری ہسپتال پہنچے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈپٹی کمشنر شکارپور رحیم بخش میتلو نے سرکاری ہینڈ آؤٹ میں تصدیق کی کہ شکارپور ضلع کے گاؤں ڈکھن اور گوٹھ سارنگ شر میں 462 لوگوں کی سکریننگ کی گئی اور ایک بھی کیس پازٹیو نہیں پایا گیا۔

رحیم بخش میتلو کے مطابق: ’چار لوگوں میں ایچ آئی وی ہونے کا شبہ تھا جن کی تصدیق کے لیے لاڑکانہ کی لیباٹری کو خون کے نمونے بھیجے گئے ہیں، رزلٹ آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کیس پازٹیو ہیں یا نیگیٹو۔‘

مقامی اخبارات نے بدین، ٹنڈوالہیار اور ٹنڈو محمد خان سے بھی ایچ آئی وی کے پازٹیو کیسز رپورٹ کیے ہیں۔

ایچ آئی وی کیسوں کی خبروں کے بعد سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی مقامی ڈاکٹر مریضوں کے ایچ آئی وی ٹیسٹ کروا رہے ہیں۔

شمالی سندھ سے دور صحرائے تھر میں بھی ٹیسٹ کے دوران ایک خاتون اور ایک مرد میں ایچ آئی وی پازٹیو رپورٹ ہوا۔ مٹھی سول ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر چمن لال نے تصدیق کی ہے کہ دو کیس پازٹیو رپورٹ ہوئے ہیں۔

کیا اتنے کیسز سامنے آنے کے بعد سندھ بھر میں سکریننگ کی جائے گی؟

جب یہ سوال سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے انچارج ڈاکٹر سکندر میمن سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا یہ تو سندھ حکومت ہی فیصلہ کرے گی۔ ابھی تو لوکل سکریننگ کی جا رہی ہے جس کی رپورٹ حکومت سندھ کو بھیجی جائے گی اور حکومت اس رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔

تاہم انہوں نے کہا: ’لیکن مجھے نہیں لگتا کہ سندھ بھر میں لوگوں کی سکریننگ کروانا ممکن ہے۔ ایک ٹیسٹ پر تقریباً 500 روپے خرچہ آتا ہے اور یہ تو ایک ٹیسٹ ہے جس کے بعد دو ٹیسٹ اور ہونے ہیں۔ اگر ہر ضلع میں سکریننگ کرائی جائی تو ایک ضلع میں ایک ارب روپے کی لاگت آئے گی۔‘

دوسری جانب اقوام متحدہ نے پاکستان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کیسز کی روک تھام کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کرے گا۔

بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر پاکستان نیل بوہنی نے کہا کہ اقوام متحدہ، صحت کے شعبے کو بہتر بنانے میں حکومت پاکستان کی ہر ممکن مدد کرے گا تاکہ لاڑکانہ میں ایچ آئی وی پھیلنے جیسے معاملات پر مستقبل میں قابو پایا جاسکے۔

بیان کے مطابق 2017 میں ایچ آئی وی کے 20 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہونے سے پاکستان ایشیا پیسیفک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں ایچ آئی وی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں موجود کُل ایچ آئی وی کیسز میں سے 43 فیصد صرف سندھ میں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی صحت