کالم کا آغاز ابصار عالم کے حوالے سے۔ یہ ایک سچا، کھرا، درویش منش انسان ہے۔ دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن۔ ایک دنیا اِسے جانتی ہے لیکن گنتی کے چند ہی قریبی دوست ہوں گے جو اس کے دل کو جانتے ہیں۔
انتہا کا مخلص اور اصول پرست تو ایسا کہ دشمنی کے بھی اصول طے کر رکھے ہیں۔ دوست بناتا ہے تو بے انتہا یہاں تک کہ کوئی شخص زندگی میں پہلی مرتبہ اور ایک ہی بار اِسے ملا ہو تو اسے لگے گا کہ ابصار ہمیشہ سے اس کا دوست تھا اور ہمیشہ رہے گا۔
خلوص اس کی گھٹی میں پڑا ہے اور اپنی اسی خرابی کے باعث زندگی میں بڑی تکلیفیں بھی اٹھائی ہیں۔
یہ مخلصی اس کی نہ صرف اپنے دوست رشتہ داروں سے ہے بلکہ اپنے کام سے اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک سے جنون کی حد تک اخلاص رکھتا ہے۔
زندگی میں بہت تکلیفیں اور آزمائشیں برداشت کی ہیں، سیلف میڈ انسان ہے، صعوبتوں پریشانیوں کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔
کم عمری میں والد کی وفات، بھائیوں کی موت کے بعد نہ صرف والدہ کے ساتھ مل کر اپنے خاندان کی دیکھ بھال کا کڑا بیڑہ اٹھایا جو کئی سال گزرنے کے بعد بھی آج تک اس شخص سے خراج مانگ رہا ہے بلکہ خود بھی صحافت جیسے پرخار کارزار میں قدم رکھا اور تین دہائیوں سے زائد تک عوام کے حقِ آگہی اور حقِ حکمرانی کی جنگ اپنے تئیں لڑتا رہا۔
اس میدانِ کارزار میں دشمنوں کا دشنام تو سہا ہی دوستوں کی ستم ظریفی کا بھی ناحق نشانہ بنا۔ لیکن اپنے کام پر ڈٹا رہا، جو بات حق سمجھی ڈنکے کی چوٹ پر کہی، جسے حق پر سمجھا اس کے ساتھ کھڑا ہوا...... ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے........ حق بات پر ڈٹ جانے کی اپنی اسی بری فطرت کے باعث اِس نے دوست کئی گنوائے ا ور دشمن سینکڑوں بنائے۔
ہر سچے پاکستانی کی طرح اپنے ملک کا عاشق ہے اور مخلص ہے۔ اسی لیے ملک میں ہوتی ہر خرابی پر ہر برائی ہر تباہی ہر بربادی پر نالاں رہتا ہے، چونکہ صحافی ہے آواز اٹھانے کی سوال کرنے کی بری عادت ہے لہذا وہی کرتا رہتا ہے اور اس جرم کی پاداش میں سزا بھی بھگتتا ہے۔
سیلف میڈ انسان ہے تو ایسے شخص کو اپنی مرضی کے مطابق جھکانے پر مجبور کرنا آسان نہیں ہوتا۔ سیلف میڈ مڈل کلاس لوگ مر تو جاتے ہیں مگر اپنی اقدار اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے۔
یہی برائی ابصار عالم میں بھی ہے۔ صحافت میں چونکہ ایک بڑا نام کمایا ہے۔ ملکی اور عالمی سطح پر اسی لیے ہم جیسوں کئیوں کے محترم استاد بھی ہیں، دیرینہ دوست بھی اور فیملی کے تعلق جیسا رشتہ احترام و رواداری بھی۔
ہم دوست احباب میں سے کئی گواہ ہوں گے جنہوں نے بہتا سمجھانے بجھانے کی کوشش کی ہوگی مگر ابصار صاحب کے بے لاگ اور بے باک انداز کو خدا ہی بدلے تو بدلے۔
دس روز پہلے اِسی کا تو خمیازہ بھگتا۔ وہ تو یقیناً رب کی مہربانی اور والدہ صاحبہ (اور دوستوں کی دعاؤں کا نتیجہ کہ جان بچ گئی وگرنہ پاکستان جیسے ملک میں سچ بولنے اور سوال اٹھانے کی سزا بڑی کڑی ہے۔
خدا آئندہ بھی سینئر صحافی ابصار عالم سمیت تمام صحافیوں کو محفوظ اور اپنی امان میں رکھے مگر خدارا سچ کو سننے اور سہنے کی ہمت پیدا کیجیے، بات کا جواب دلیل سے دیجئے گولی سے نہیں۔
جہاں معاملات میں تشدد کا عنصر پیدا ہو جائے اصل خرابی وہیں سے پنپتی ہے۔ اِس ملک کو آگے لے کر بڑھنا ہے تو اختلافِ رائے برداشت کرنا ہوگا، ایک دوسرے کی بات اور تحفظات کا احترام کرنا ہوگا، احترامِ باہمی کے نکتے سے اعتماد سازی کا آغاز کرنا ہوگا، یہی پاکستان میں اصل تبدیلی کا نکتہ آغاز ہوگا۔
سیاسی تبدیلی
اور اب بات ملک میں سیاسی تبدیلی کی۔ ایک بات تو طے ہوگئی اور حال ہی میں عیاں بھی ہوگئی کہ باوجود تمام تر سیاسی کاوشوں اور غیر سیاسی اشاروں کنایوں کے، اس بات کے امکانات قوی ہیں کہ رواں حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے۔
عوام کے ایک بڑے طبقے کی رائے اگرچہ کئی عوامل کے تحت حکومت کے مخالف جا بھی رہی ہو مگر اسٹیبلشمنٹ کی سوچ فی الحال اس امر پر برقرار ہے کہ حکومت اپنی مقررہ مدت پوری کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مگر دھیان رہے، اِس سوچ میں فکر کا (element) ضرور پایا جاتا ہے جس کی بنیاد ملک کی معاشی صورت حال، مہنگائی کا سونامی، سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گورننس اور ڈلیوری کی عدم موجودگی، مرکز میں حکومتی اختیارات کی کھینچا تانی، حکومتی جماعتی اور پارلیمانی ڈھانچے میں دراڑیں اور مرکزی سطح پر کنفیوژن اور فیصلہ سازی میں عدم استحکام بڑی وجوہات ہیں۔
خاص کر پنجاب میں حکمران قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ‘nuisance’ کا عنوان دیا جا چکا ہے۔ گرووار 29 اپریل کو جو حشر تحریکِ انصاف کے امیدوار کا کراچی کے ایک حلقے کی سیٹ پر ہوا، خدشہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں یہی حالت حکمران جماعت کے لیے پنجاب میں جگہ جگہ نظر آئے۔
یہ خدشہ بعید بھی نہیں کیونکہ پنجاب میں کچھ سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات نے جو نوشتہ دیوار دکھایا، وہ عقل مند کے لیے اشارے کے مترادف ہے۔ یہ تمام معاملات وہ بوجھ ہیں جن ہی کے بارے میں حالیہ پیغام بھی دے دیا گیا ہے کہ حکومت اگر گرے گی تو اپنے ہی بوجھ سے گرے گی۔
یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ کپتان کی ٹیم سو فیصد اس کی اپنی ٹیم اور شخصی پسند ہے جس میں کسی اور جانب سے نہ تو کوئی ہدایت نہ (input) کسی بھی مرحلے پر شامل رہی (ماسوائے ایک شخصیت سابق وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے)۔
لہذا معاشی فرنٹ سے لے کر پنجاب جیسے وسیع و عریض گراؤنڈ پر کپتان کی ٹیم اگر ناکام ہوتی ہے تو یہ خالصتاً کپتان کی ناکامی ہے۔
سلیکٹر یا امپائر کو کسی بھی لمحے موردِ الزام نہ گردانا جائے۔ ادارہ ھذا کسی بھی کوتاہی یا غلطی کا ذمہ دار نہ ہے۔ آخر میں اہم سوال یہی رہ جاتا ہے کہ اپنی ٹرم کے آخری چند اوورز باقی رہ جانے کے لمحات میں کپتان اس پیغام کو کتنی سنجیدگی سے تصور کرتے ہیں اور کیا اپنا بوجھ خود اٹھانے اور سہنے کے لیے تیار ہوتے ہیں یا نہیں...
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔