پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر خان ترین کے سیاسی رابطوں میں اچانک تیزی آ گئی ہے۔ پارٹی کے وائس چیئرمین وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ان کے سیاسی کردار پر کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ گورنر پنجاب چوہدری سرور سمیت پنجاب کے دیگر کئی پارٹی رہنما بھی حکومتی اور پارٹی معاملات میں ان کی مداخلت سے ناخوش ہیں۔
جہانگیر ترین ایک ایسے وقت میں سیاسی طور پر متحرک ہوئے ہیں جب حکمران جماعت کو وفاق اور پنجاب میں سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔
جہانگیر ترین کے بارے میں عام رائے ہے کہ وہ نہ صرف اتحادی جماعتوں کے تحفظات پر فوری ان سے ملنے پہنچ جاتے ہیں بلکہ پارٹی کے اراکین کو درپیش مسائل پر انہیں بھی ساتھ رکھنے کی مہارت رکھتے ہیں۔
جہانگیر ترین ایک بار پھر سرگرم
جمعرات کے روز انہوں نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری، کراچی سے تحریک انصاف کے ایم این اے عبدالشکور شاد، کرم ایجنسی سے متحدہ مجلس عمل کے ایم این اے منیر خان اورکزئی، جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی ارکانِ قومی اسمبلی ابراہیم خان، عبد الغفار وٹو، فیض کموکا، رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض، رضا نصراللہ گھمن اور جاوید وڑائچ سے ملاقاتیں کیں۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر اور آزاد ایم این اے اسلم بھوتانی کی بھی جہانگیر ترین سے ملاقاتیں ہوئیں اور انہوں نے تمام ارکان کے حلقوں سے متعلق مسائل وزیراعظم تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔ ملاقاتوں میں سیاسی صورتحال اور حکومتی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے جہانگیر ترین سے ملاقات میں حلقے کے مسائل حل کرانے اور سیاسی صورتحال پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی قیادت کو اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا اور پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے مشورے بھی دیے۔
انہوں نے بتایا کہ جہانگیر ترین کے ساتھ ملاقات میں مسائل حل کرکے تحفظات دور کرنے پر اتفاق ہوا اور اراکین کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں سے متعلق وزیر اعظم کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔
صوبائی کابینہ میں رود و بدل موخر
پی ٹی آئی پنجاب کے سرکردہ رہنماؤں کے مطابق نیب کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحقیقات کے آغاز اور گورنر پنجاب کی جانب سے اپنے تحفظات سے متعلق حالیہ پریس کانفرنس سے صوبے میں پی ٹی آئی حکومت اپنی عددی برتری برقرار رکھنے کے لیے بھی متحرک ہو گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت پنجاب کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے پیش نظر صوبائی کابینہ میں کارکردگی کی بنیاد پر ردوبدل کا معاملہ بھی موخر کردیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر ڈاکٹر مراد راس سے جب پوچھا گیا کہ جن پانچ صوبائی وزرا کی کارکردگی پر ان کے قلم دان تبدیل کیے جانے پر غور کیا جا رہا تھا، اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ بجٹ آنے تک کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی، تاہم وزیر اعظم نے سب وزرا کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔
پنجاب میں اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے جہانگیر ترین سے قریبی تعلقات ہیں جبکہ آزاد حیثیت میں انتخاب جیتنے والے 30 میں سے 25 اراکین سے پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے معاملات بھی جہانگیر ترین اور علیم خان نے ہی طے کیے تھے۔ پنجاب کی صوبائی کابینہ کے بیشتر اراکین کو وزارتیں دلوانے میں بھی جہانگیر ترین متحرک نظر آئے تھے۔
جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، چوہدری سرور کی تکون
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور گورنر پنجاب چوہدری سرور کو جہانگیر ترین کی حکومتی اور پارٹی معاملات میں مداخلت پسند نہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان دونوں رہنماؤں کو پریس کانفرنس کے ذریعے قیادت کو پیغام دینا پڑا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں نااہل قرار دے چکی ہے، لہٰذا انہیں کابینہ اور پارٹی اجلاسوں میں شرکت سے روکا جائے۔
ان دونوں کا موقف تھا کہ جس طرح نواز شریف تاحیات نااہل ہیں، اُسی طرح جہانگیر ترین بھی تاحیات نااہل ہیں جبکہ دوسری طرف جہانگیر ترین کا دعویٰ ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی مرضی سے سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ حکمران جماعت کو درپیش موجودہ سیاسی چیلنجوں سےنکالنے کے لیے ترین فارمولا مکمل کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ بات سیاسی معاملات سے نکل کر اب کارکردگی کی طرف چل پڑی ہے۔