یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
مغربی بنگال کی ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے مخصوص انداز میں ترنمول کانگریس کی تیز طرار رہنما ممتا بنرجی کو مخاطب کرتے ہوئے پکارا ’دیدی۔۔۔او دیدی۔۔۔نندی گرام سے آپ کا انتخابی صفایا ہوگا‘ تو مجمع میں ہزاروں لوگوں کے زوردار قہقہوں سے انہیں شاید اپنی انتخابی جیت نظر آ رہی تھی۔
لیکن بنگال کی بیشتر خواتین کو 1975 کی مشہور فلم ’شعلے‘ کا وہ دل دہلانے دینے والا منظر یاد آ رہا تھا جب ایک خطرناک ڈاکو گبر سنگھ مخصوص لہجے میں اپنے ساتھیوں سے پوچھ رہے تھے کہ ’سانبا! ارے او سانبا! کتنے آدمی تھے؟‘
شاید مودی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میڈیا کنٹرول کرنے کے باوجود ان کی یہ ویڈیو وائرل ہوجائے گی اور انتخابی نتائج پر منفی اثر ڈالے گی۔ حالانکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوٹلی اس وقت تک خواتین ووٹروں سے بھری جا رہی تھی مگر وہ مودی کے ’گبر سنگھ‘ والے لہجے کے بعد بی جے پی سے کھسکنے لگیں۔
بنگال کے دانشور طبقے نے کھل کر اس کی بھر پور مذمت کی۔ اپنی بنگالی شناخت، عورت کا احترام اور مذہبی رواداری کو برقرار رکھنے کی ایک ڈیجیٹل مہم شروع کردی جس کے پیش نظر انتخابی حلقوں پر ایک تو ووٹروں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں دوسرا عورتوں نے پہلی بار ممتا کی حمایت میں اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈال کر بنگالی عورت کی مان یعنی احترام کا احساس دلایا۔
بی جے پی نے بنگال کو بھی گجرات کی عینک سے دیکھا اور وہی اپنی روایتی اور مذہبی جوڑ توڑ کی سیاست شروع کر دی۔
اس کی بنیاد ہندو مہاسبھا کے سربراہ شیام پرساد مکھرجی نے سن 1947 میں ڈالی تھی جب حسین سہروردی نے برصغیر کی تقسیم کے وقت بنگال کو ایک آزاد خودمختار ملک کے طور پر رکھنے کی درخواست کی تھی۔ بعض مورخین کے مطابق محمد علی جناح نے بھی اندرونی طور پر حمایت کر دی تھی لیکن نہرو اور پٹیل نے سہروردی کو اس کی تشہیر اور مطالبے سے روک دیا تھا۔
سہروردی کو احساس تھا کہ اکثر بنگالیوں میں قومی شناخت کا عنصر انتہائی گہرا ہے جس کا درد انہوں نے 1905 میں بنگال کی پہلی تقسیم کے وقت شدت سے محسوس کیا تھا۔ بنگالی تشخص اور بنگالی زبان کا تحفظ سن 71 میں پاکستان ٹوٹنے اور بنگلہ دیش بننے کا موجب بھی بنا ہے۔
بنگال دو ملکوں کے بیچ میں تقسیم تو ہوا ہے مگر بنگالی، ہندو مسلمان کی بجائے قومی تشخص کو عزیز سمجھتے ہیں۔ گو کہ ان میں مذہبی تفریق پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔
آزادی کے بعد مغربی بنگال میں چونکہ پہلے کانگریس اور اس کے بعد بائیں بازو کی حکومت 34 برس تک برسراقتدار رہی لہذا فرقہ پرست جماعتوں کو یہاں اپنی جڑیں گہری کرنے کا اتنا موقعہ نہیں ملا۔ سن 2000 کے بعد بھارت پر ہندوتوا جماعتوں کا اثر جب گہرا ہونے لگا، بنگال میں اپنے وجود کو قائم کرنا آر ایس ایس کے لیے انا کا مسئلہ بنتا گیا تاہم بنگال گجرات نہیں بن سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کبھی بنگال کی 30 فیصد مسلم آبادی کو ’کیڑے مکوڑے‘ سمجھ کر انہیں تارکین وطن قرار دیا گیا تو کبھی مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے ادارے تشکیل دیئے گئے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق بنگال میں مسلمانوں کی آبادی سالانہ 12 فیصد سے کم ہو رہی ہے۔ کبھی بعض علاقوں میں فسادات کر کے مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا تو کبھی بنگلہ دیشی کہہ کر شہریت کے نئے ہتھکنڈوں میں جکڑنے کے قوانین بنائے گئے۔
حالیہ انتخابات میں فرقہ پرستی کا بیج اس قدر بویا گیا تھا کہ اسلامیات میں ڈگری یافتہ اور سیکولر رہنما ممتا بنرجی کو دباؤ میں آ کر مندر میں چندی پاٹھ پڑھنے سے اس بات کی یقین دہانی کرانی پڑی کہ وہ نہ صرف ہندو ہیں بلکہ اپنے مذہب پر قائم و دائم ہیں۔ اسی دباؤ میں آ کر مسلم نشتیں بھی کم کرنی پڑیں۔
مگر انتخابی نتائج سے ظاہر ہوا کہ مغربی بنگال میں ہندوؤں کی اکثریت نے فرقہ پرستی کو رد کر کے ایک بار پھر ریاست کو مزید بکھرنے سے بچایا ہے۔ بنگال کی تاریخ شمالی ہندوستان سے کافی مختلف ہے۔ اسے حقیقت میں گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
ایشیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی تصنیفات، سنگیت اور آرٹ سے جہاں اس خطے کو دنیا سے متعارف کرایا وہیں سوامی وویکانند نے ویدوں، یوگا اور منطق سے معروف مصنفوں کو وارد بنگال پر مجبور کر دیا۔
اسی بنگال میں راجہ رام موہن رائے نے ہندوؤں میں رائج رسم ستی کے خلاف منظم مہم چلائی جب شوہر کے انتقال پر بیوی کو اس کی چتا پر زندہ جلایا جاتا تھا۔ اسی بنگال میں ہندوؤں کی اکثریت قاضی نظرالاسلام کی سنگیت کی برسوں سے دیوانی رہی ہے۔
بقول ایک بنگالی صحافی سومترا بنرجی ’بنگال میں ایک عورت کو للکارنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس معاشرے کو ادب، تصنیفات، سنگیت اور آرٹ نے اتنا حساس، نازک، خوبصورت اور مہذب بنایا ہے اس معاشرے میں ماں درگا بھی موجود ہے جو گببر سنگھ یا اس کا روپ دھارن کرنے والوں کو نہ صرف نگھل لیتی ہے بلکہ گبر سنگھوں کے سیاسی کیریر کا کاونٹ ڈاؤن بھی شروع کرواتی ہے کیونکہ بنگالی معاشرے میں مذہبی منافرت کی تحریکیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔‘