بھارتی عام انتخابات میں مرد امیدوار تو خواتین کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن الیکشن لڑنے والی خواتین میں سے بہت کم ایسی ہیں جنھیں دیکھ کر بھارتی سیاست میں خواتین کی مشکلات کا اندازہ کیا جا سکے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی خواتین کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔
بھارت میں 90 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز میں تقریباً نصف تعداد خواتین کی ہے جو 43 کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے سیاسی حریف راہل گاندھی نے خواتین کے تحفظ اور انھیں نئے مواقعے فراہم کرنے کے وعدے تو کیے ہیں لیکن حقیقت میں بھارتی خواتین کی زندگی بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔
بھارت میں خواتین کی آمدن کم ہے، وہ تعلیم میں پیچھے ہیں، غربت کی شکار بھارتی خواتین کی کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے جبکہ انھیں جنسی ہراسانی اور آبروریزی کے خطرے کا سامنا بھی رہتا ہے۔
ایسے حالات میں سیاسی میدان میں ان کی حالت زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ بھارت میں’شکتی‘ نامی تنظیم پارلیمنٹ میں خواتین کی زیادہ تعداد کے لیے سرگرم ہے۔ تنظیم کی عہدیدار تارا کرشنا سوامی کہتی ہیں کہ بھارت میں معیشت اور معاشرے دونوں پر مردوں کا قبضہ ہے۔ یہی صورت حال سیاسی میدان میں بھی نمایاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی خواتین کی حالت زار کی عکاسی سیاست سے زیادہ کسی اور جگہ نہیں ہوسکتی۔ خواتین پیدائش سے لے کر موت تک امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
وزیراعظم مودی اور راہول گاندھی کو امید ہے کہ وہ بہتر کل کے وعدے کر کے آج کے الیکشن میں بھارتی خواتین کے ووٹ حاصل کر لیں گے۔ خواتین کے ووٹ کی سرتوڑ کوشش کے باوجود اقتدار میں حصے کی خواہش مند بڑی سیاسی جماعتوں کا خواتین کو قیادت دینے کا ریکارڈ خراب ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں بھارتی پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد محض 24 فیصد تھی جو 1995 کے مقابلے میں 11.3 فیصد ہی زیادہ تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارتی الیکشن پر نظر رکھنے والی تنظیم ’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘ کے اعدادوشمار کے مطابق لوک سبھا کے لیے حالیہ انتخابات میں ملک میں کل 6046 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے صرف 527 خواتین ہیں۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 437 کے امیدواروں میں صرف 50 خواتین ہیں جبکہ حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت اور سیکولرزم اور حقوقِ نسواں کی علمبردار ہونے کی دعویدار کانگریس پارٹی کے حالات بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جس نے کل 421 امیدواروں میں سے محض 46 خواتین کو ٹکٹ دینے کے قابل سمجھا۔
بی جے پی کے خواتین ونگ کی صدر وجایا رہاتکر کہتی ہیں کہ خاتون امیداروں کی تعداد کم ہے۔ سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ خواتین الیکشن نہیں لڑ سکتیں کیونکہ سیاست پر کئی برس سے مردوں کا غلبہ ہے۔ وجایا رہاتکر کو اس خیال سے اتفاق نہیں ہے۔
تنظیم ’شکتی‘ کے بانیوں میں شامل تارا کرشنا سوامی کے مطابق سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ انھیں خواتین امیدار نہیں ملتیں۔ کرشنا سوامی کی رائے میں یہ دعویٰ غلط ہے۔ حقیقت میں سیاسی جماعتیں مردوں کو بہتر امیدوار سمجھتی ہیں۔
خاتون ارکان پارلیمان کی تعداد کے اعتبار سے بھارت 150 ویں نمبر ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنے ہمسایہ ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔
بھارت میں سیاسی جماعتیں خاتون امیداروں کی کمی فلمی اداکاراؤں کو آگے لا کر پورا کرتی ہیں۔ ممبئی میں کانگریس نے اداکارہ ارمیلا متندکرکو ٹکٹ دیا ہے۔ مغربی بنگال کی بڑی جماعت آل انڈیا ترنا مول کانگریس بھی تین اداکاراؤں کو میدان میں لائی ہے۔
تارا کرشنا سوامی کہتی ہیں کہ اداکاراؤں کو ٹکٹ دینے سے یہ غلط تاثر پیدا ہوا ہے کہ الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ ان کی نیت یہ نہیں ہے۔ ترانامول کانگریس نے وضاحت کی ہے کہ انھوں نے لیڈی ڈاکٹرز سمیت خاتون وکلا اور بینکاروں کو بھی ٹکٹ دیے ہیں لیکن میڈٰیا کی توجہ صرف اداکاراوں پر ہی رہتی ہے۔
جنوبی بھارت کی معروف تامل اداکارہ خوشبو سُندر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ جب انہوں نے سیاست کی دنیا میں قدم رکھا تو پرستار محض ان کے دیدار کے لیے جوق در جوق جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔ خوشبو اب قومی سطح پر کانگریس پارٹی کی ترجمان ہیں اور ان کے پرستاروں نے اداکارہ کے نام پر ایک مندر بھی تعمیر کیا ہے۔
خوشبو نے کہا: ’اب وہ [پرستار] میرے خیرمقدم کے لیے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں، میں انہیں پھر ملنے کا وعدہ کر کے لوٹ آتی ہوں۔ اس طرح خواتین امیدواروں یا انتخابی مہم چلانے والی خواتین کے لیے ووٹرز کے طرزعمل میں بڑا بدلاؤ آیا ہے۔‘
سیاسی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ خواتین کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے اندر بھی تبدیلی آنی چاہیے جہاں امیداروں کے انتخاب کے لیے میرٹ اور ان کا سیاسی اثر و رسوخ دیکھا جائے نہ کہ ان کی جنس۔