افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغرب میں ہزارہ ضلع میں سید الشہدا سکول پر شدت پسندوں کے حملے میں 85 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں زیادہ تر طالب علم تھے۔
اس واقعے نے عالمی سطح پر جذبات کو مجروح کیا اور وہ بھی اس قدر کہ اقوام متحدہ نے اس حملے کے قصورواروں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ افغانستان کے اندر بھی اس حملے کا ردعمل شدید تھا۔
عوامی یوم سوگ کے اعلان کے علاوہ لوگوں نے اس واقعے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ لیکن اس دوران متعدد سیاست دانوں، خاص طور پر ہزارہ سیاست دانوں نے واقعے کے بارے میں ایک مختلف نقطہ نظر اختیار کیا۔
اس طرح کے واقعات کے بعد ہزارہ سیاسی رہنما اکثر نسلی تناؤ میں اضافے کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس بار وہ اس طرح کے واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف میدان جنگ سجانے کا اعلان کر رہے ہیں۔
اسلامی اتحاد پارٹی کے رہنما اور افغانستان کے صدر کے مشیر محمد محقق نے اپنے فیس بک پیج پر سخت بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے مرتکب افراد کے خلاف جنگ شروع ہوچکی ہے۔
انہوں نے فیس بک پر لکھا، ’ہمارے بچوں کا بلاجواز بہایا جانے والا خون زمین پر رائگاں نہیں جائے گا۔ میدان جنگ میں انتقام کے لیے تیار رہیں۔ ہمارا جواب میدان جنگ میں معلوم ہوگا۔‘
محمد محقق کی اس پوسٹ پر مختلف ردعمل سامنے آئے۔ سینکڑوں لوگوں نے اسے اپنے صفحات پر اسے شیئر کیا اور بہت سے لوگوں نے محقق کے ساتھ اس جنگ کے لیے تیار ہونے کا اعلان کیا۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ دیگر ہزارہ سیاست دانوں نے بھی ہزارہ افراد کو دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
تاہم محقق کے اس سخت پیغام میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ آیا میدان جنگ سکیورٹی فورسز کے لیے ہوگا یا ہزارہ آزادانہ طور پر طالبان کے خلاف میدان جنگ سجائیں گے۔
ہزارہ افغان سکیورٹی فورسز کا کافی بڑا حصہ ہیں۔ اگرچہ سکیورٹی فورسز کی قیادت کی سطح پر یہ حصہ زیادہ نہیں ہے، لیکن نچلی سطح پر ہزارہ فوجیوں کی موجودگی کو افغان فوج اور پولیس میں بڑی حد تک دیکھا جاسکتا ہے۔
تاہم نیم فوجی مسلح ملیشیا بنانا ہزار قوم کے لیے اہم ہے۔
صوبہ غزنی کے کچھ حصوں میں کمانڈر علی پور کی موجودگی برسوں سے میڈیا کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ صوبہ غزنی کے بہسود کے علاقے میں ایک ہیلی کاپٹر کے واقعے کے بعد سے علی پور حکومت سے ناراض ہوگئے تھے۔
حکومت نے اپنے زیر انتظام علاقے میں علی پور کے خلاف فوجی کارروائیاں کیں لیکن انہوں نے علی پور کو دبانے کی بجائے اس علاقے میں جنگ کی آگ کو بھڑکا دیا۔
روشن خیال تحریک کے ایک رہنما اور لیبر اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رہنما جنرل علی سیگاٹ اور ذوالفقار امید نے حال ہی میں وسطی افغانستان کے صوبہ دایکنڈی میں ایک نیا محاذ کھولا ہے جسے ’مزاحمتی محاذ دو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ان ملیشیاؤں کے تشکیل کی وجہ افغان حکومت کی ہزاروں افراد کو طالبان کے خلاف تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی ہے۔ تاہم ، کچھ ہزارہ سیاست دان میدان جنگ سجانے اور ہزاروں افراد کو مسلح کرنے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔
ان کے خیال میں ہزارہ قوم کو مسلح کرنے سے حکومت کی طرف سے شدید ردعمل پیدا ہوگا۔ کیوں کہ ان سیاست دانوں کو یقین ہے کہ حکومت ہزارہ کی مسلح ملیشیاؤں کے ساتھ وہی سلوک کرے گی جس طرح وہ طالبان اور القاعدہ کے ساتھ کرتی ہے۔
ہزارہ سیاست دانوں کے قریب سب سے بہتر راستہ سرکاری سکیورٹی فورسز میں داخل ہونا ہے۔ اگرچہ افغان فوج میں ہزارہ افراد کی موجودگی پہلے ہی کافی واضح ہے لیکن ان سیاست دانوں کا خیال ہے کہ ہزاروں کی موجودگی میں اضافہ انہیں طالبان کی طرح کی ایک جابرانہ قوت میں تبدیل کرسکتا ہے۔
فاطمیون کی افغانستان میں موجودگی؟
شام میں جنگ ختم ہوتی جا رہی ہے اور فاطمیون جنگجو کا جو زیادہ تر افغان شیعوں خاص طور پر ہزارہ افراد پر مشتمل ہے ایران اور افغانستان واپس جانے کا امکان ہے۔
یہ ممکن ہے کہ ایران کے مفاد میں ان قوتوں کو ہزارہ افراد کے تحفظ کے لیے اور طالبان کے خلاف مزاحمت کی آڑ میں پراکسی جنگ کے لیے افغانستان بھیجا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ آج تک کسی بھی ہزارہ سیاست دان نے افغانستان میں فاطمیون کی موجودگی کی ضرورت کے بارے میں کھلے عام بات نہیں کی ہے تاہم ہزارہ رہنماؤں کو اس بات پر تشویش ہے کہ اگر فاطمیون کی موجودگی افغانستان میں ہے تو ملک میں قبائلی یا مذہبی جنگ کا زیادہ امکان موجود ہے۔
افغانستان اور یہاں تک کہ خود ہزارہ کا۔ اسی وجہ سے آج تک کسی نے، یہاں تک کہ ان لوگوں نے بھی، جنہوں نے مزاحمتی محاذ بنانے کی بات کی ہے نے فاطمیون کی ضرورت کا ذکر نہیں کیا۔
ہزارہ قوم کو بڑی تعداد میں نشانہ بنانا ایک باخبر انٹیلی جنس حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی کا اہم ترین اصول حکومت اور ہزارہ کے جو افغانستان میں ایک انتہائی مہذب گروہ کے طور پر جانا جاتا ہے مابین فاصلہ پیدا کرنا ہے۔
پچھلے پانچ سالوں میں 25 دہشت گرد حملوں نے ہزارہ برادری کو براہ راست نشانہ بنایا ہے، جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
تاہم، اکثر ہزارہ قائدین اور عوام دونوں کی رائے ہے کہ صرف حکومت کو مضبوط بنانے سے ہی اس طرح کے حملوں کو روکا جاسکتا ہے۔ براہ راست مزاحمت کے محاذوں کی تشکیل سے حکومت کا اختیار ختم ہو جائے گا اور جنگجوؤں کی واپسی ہوگی۔
نوٹ: اس مضمون میں دی گئی رائے مصنف کی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ مضمون اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوا۔