کل شام نیوزی لینڈ سے ایک محترم پرانے کولیگ اور دوست کا فون آیا۔ سلام دعا کے بعد ہنستے ہنستے کہنے لگے آپ لوگوں نے پاکستان میں صحیح رونق لگا رکھی ہے۔
ہم رہتے آپ سے ہزاروں کلو میٹر دور دنیا کے دوسرے کونے میں ہیں مگر ہماری ہر شام کی فیملی بیٹھک پاکستان کے ذکر سے بھرپور ہوتی ہے۔
گذشتہ کئی شاموں سے تو میں، میری بیگم صاحبہ اور بچے پاکستان کی قومی اسمبلی میں لگنے والے تماشے پر خوب بحث بلکہ لڑائی نما بحث میں لگے رہے۔
’لڑائی نما بحث‘ کا پس منظر ہمارے پڑھنے والے بھی جان لیں کہ اِس مکس پلیٹ نما فیملی میں ہمارے محترم دوست ایک سیاسی جماعت کے حامی ہیں تو ان کی بیگم صاحبہ ایک دوسری جماعت کی جنونی پیروکار ہیں۔
رہ گئے بچے تو دونوں والدین ایسی صورتحال میں اپنے اپنے فیورٹ دانے کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔
ہم دوست چھیڑخانی کرتے ہوئے اس فیملی کو چُوں چُوں کا مُربّہ اور دیگر پنجابی محاوروں سے تشبیہہ دیتے ہیں جبکہ ہمارے یہ سیاسی بیان بازی کے طبع کے ماہر شاطر دوست اسے ’ڈائیورسٹی‘ تنوع اور جداگانگی جیسے خوشنما الفاظ سے سجا کر اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔
بہرحال شاید اپنی بیگم صاحبہ سے بحث نہ جیت سکے تو لگے ہم پر دوستی کا رعب جمانے اور لیکچر دینے لگے کہ رواں ہفتے کے آغاز سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں جو تماشہ پوری قوم اور پوری دنیا نے دیکھا وہ کس کس طرح قوم کی اخلاقی مفلوک الحالی کی المناک داستان ہے۔
ایک تو ہم صحافی اوپر سے اینکرپرسن۔ ہم سے تو برداشت نہ ہوا اور کہا بھائی صاحب اپنی قوم کو اخلاقی بھاشن دینے کا کام ہمارا ہے آپ ہمارے کام میں ٹانگ مت اَڑایے اور کوشش کیجیے کہ جس ملک میں جا بَسے ہیں وہاں رَچ بَس جائیں اور وہاں کے معاملات میں ہی خود کو مصروف کیجیے۔
پاکستان کو یہاں رہنے والے پاکستانیوں کے حوالے ہی رہنے دیجیے۔ ایک تو ہمارے کم و بیش تمام ہی اوورسیز پاکستانیوں کا بڑا مسئلہ ہے کہ وہ نئے مواقعے اور بہتر مستقبل کی خاطر نئی دنیا میں رہائش اور روزگار تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اُس نئی دنیا کو اپناتے نہیں۔
ایسے پاکستانیوں کے مقابلے میں بھارتیوں کو دیکھیں تو وہ نئے اختیاری ملک کا ایسے حصہ بن جاتے ہیں کہ اس ملک کی معیشت، پالیسی سازی اور تانا بانا ان کے بغیر نامکمل ہوجاتا ہے۔
میری بات کے جواب میں ہمارے دوست صاحب لگے طنز کرنے۔ کہنے لگے آپ جیسے لوگ خواہ مخواہ پاکستان کی ترقی میں ہمارے براہِ راست کردار کے خلاف ہیں۔
اگر ہمارے جیسے پڑھے لکھے عالمی ایکسپوژر رکھنے والے اوورسیز پاکستانی ووٹ ڈالنے کے عمل کا اور پاکستان کی پارلیمان کا حصّہ بنیں گے تو آپ کو گامے ماجھے قسم کی سڑک چھاپ لڑائیاں اور گلی کے نکڑ پر تھڑے باز قسم کے لوگوں کی گالیاں اور زبان اعلیٰ ترین ایوان میں نظر نہیں آئے گی نہ قوم کا پیسہ ضائع ہوگا۔
ہم تو خود سب سے زیادہ پیسہ پاکستان بھیج کر آپ کی معیشت کو ترسیلات زر کا سہارا دیتے ہیں۔
یہاں نیوزی لینڈ میں بھی دہری شہریت والے کو ووٹ کا حق حاصل ہے وہ پارلیمان کا ممبر بھی بن سکتا ہے یہاں اس کی وفاداری پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔
نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں سلجھے انداز سے پڑھے لکھے سنجیدہ ممبران اپنے عوام کے فائدے کے لیے بحث اور قانون سازی کرتے ہیں۔
یہ والی بات تو ان کی درست تھی لیکن نجانے کس بات کا غصّہ یا رَنج تھا، شاید گذشتہ دنوں پارلیمان کی ہوئی توہین کا یا شاید منتخب نمائندوں کے اخلاق باختہ بازاری رویے کا یا شاید عوامی پیسے اور وقت کے ضیاع کا یا پھر شاید دن بدن تنزلی کا شکار قومی اخلاقیات کا اور اپنے ملک اپنی قوم کو پستی کی اندھی گہری دلدل میں مسلسل دھنستے چلے جاتے ہوئے دیکھنے اور کچھ نہ کر پانے کا رنج اور غصہ۔
بہرحال میں نے قدرے تلخی سے اپنے محترم دوست کو جواب دیا کہ دیکھیے اول تو مہذب دنیا کے کئی پارلیمانوں کے ایسے واقعات میں آپ کو گنوا سکتی ہوں جہاں ایسا ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ!
اور دوسرا اگر آپ کو دیگر ممالک کی پارلیمان ہمارے ہاں سے بہتر لگتی ہے تو آپ وہیں کے لیے ووٹ کاسٹ کیجیے نا اور وہیں کے ممبر بنیے۔ ہمارے ہاں کیوں بدیس سے اخلاقیات کا عَلَم گاڑنے آنا چاہتے ہیں۔
یہ کہہ کر دوبارہ بات ہوتی ہے پر اپنے محترم دوست سے فون بند کرنے کی اجازت طلب کی۔ لیکن یقین مانیے فون بند کرنے کے بعد بھی رَنج، غم و غصّہ اور جھنجھلاہٹ ختم نہ ہو سکی بلکہ رُسوائی کا احساس مزید گہرا ہوگیا کہ دنیا بھر میں ہماری مقدس منتخب پارلیمان کے مناظر دیکھے گئے ہوں گے کیا کیا جگ ہنسائی نہ ہوئی ہوگی کیسے کیسے الفاظ منتخب نمائندوں، ان کے رویوں اور پارلیمان کے کردار کے بارے نہ کہے گئے ہوں گے۔
ایسی پارلیمان جو تاریخی اعتبار سے کمزور رہی ہے جس پر کئی بار شب خون مارا گیا جس کی توقیر اور بالادستی کو کئی بار بھاری بھر کم بوٹوں تلے روندا گیا ہو جو آج بھی محض ربر سٹیمپ کی حیثیت سے تصور کی جاتی ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اُسی پارلیمان کے تقدس کو بیرونی نہیں اندرونی عناصر ہی داغدار کر رہے ہیں۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے... جو قومی اسمبلی میں ہوا اور جس کا نشرِ مکرّر پھر بلوچستان اسمبلی میں دیکھا گیا۔۔۔ شرم ناک اور افسوس ناک جیسے الفاظ معمولی نظر آتے ہیں۔
زیادہ شرم ناک اور افسوس ناک تو یہ صورتحال ہے کہ اس سب کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی سیاسی جماعت تیار نہیں۔
سبھی ’اگر مگر چونکہ چنانچہ‘ کے ساتھ دوسرے کو موردِ الزام اور خود کو بری الذّمہ قرار دینے میں سبقت لیے جا رہے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ آئندہ کے لیے بھی ہمارے سیاست دانوں میں سے کوئی ضمانت اٹھانے کو تیار نہیں کہ مستقبل میں ایسی نیچ حرکت نہ ہو گی۔
پھر ایسے میں سیاست کی عزت برقرار کون رکھے گا؟ اِس پَگ کا رکھوالا کون بنے گا؟ پھر سوال کرتے ہیں شکوہ کرتے ہیں کہ جمہوریت کو عزت کیوں نہیں دی جاتی، منتخب نمائندے کو عزت کیوں نہیں دی جاتی، سیاست دان کو گالی کیوں دی جاتی ہے۔
جب سیاست دان ہی سیاست کے لیے گالی بن جائے تو کسی اور سے شکوہ کیسا۔ مجلسِ شوریٰ کو جب مجلسِ نورا کشتی بنا لیا جائے تو کیسی حاکمیت اور کیسی سالمیت۔
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی