پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران میں ہفتے کی صبح ایک مسلح حملے میں آٹھ پاکستانی شہریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے حکومت ایران سے ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کر کے ’قرار واقعی سزا‘ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں شہباز شریف نے ایران کے صوبے سیستان کے علاقے مہرستان میں پاکستانیوں کے قتل پر تشویش اور گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کا ناسور خطے میں موجود تمام ملک کے لیے تباہ کن ہے، تمام ممالک کو مل کر اس کے خلاف مربوط حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔‘
انہوں نے وزارت خارجہ کو مقتول پاکستانیوں کے اہل خانہ سے رابطہ کرنے اور ایران میں پاکستانی سفارت خانے کو ان کی میتوں کی بحفاظت واپسی کے لیے اقدامات کی ہدایت بھی کی۔
ایران میں آٹھ پاکستانی شہریوں کے مسلح افراد کے ہاتھوں قتل کے حوالے سے ابتدائی اطلاعات ہفتے کی صبح مقامی میڈیا پر سامنے آئی تھی جس کے بعد ہفتے ہی کو رات دیر گئے پاکستانی حکام کی جانب سے اس واقعے کی تصدیق کی گئی تھی۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے میڈیا کے سوالات پر ہفتے کی شب بتایا تھا کہ ’ہم اس المناک واقعے سے آگاہ ہیں اور ایرانی حکام سے رابطے میں ہیں۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’تصدیق شدہ تفصیلات دستیاب ہونے کے بعد مزید تبصرہ کیا جائے گا۔ زاہدان میں سفارت خانہ اور ہمارا قونصل خانہ متعلقہ ایرانی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔‘
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی ایک پیغام میں اس واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی تمام تر ہمدردیاں جاں بحق افراد کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔‘
ایران میں ہفتے کی صبح ایک مسلح حملے میں آٹھ پاکستانی شہریوں کے قتل کو قابل نفرت قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے ایرانی حکومت سے واقعے کی فوری اور شفاف تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان خبر رساں ادارے خامہ نیوز کے مطابق 12 اپریل 2025 کو ضلع مہرسطان کے گاؤں ہزآبادِ پائین میں یہ واقعہ پیش آیا جو افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
غیر سرکاری خبر رساں ادارے حلوش کے مطابق نامعلوم حملہ آوروں نے صبح سویرے ایک ورکشاپ پر اندھا دھند فائرنگ کی اور جائے وقوع سے فرار ہو گئے۔ قتل ہونے والے تمام افراد پاکستانی شہری تھے اور مکینک کے طور پر کام کر رہے تھے۔
خامہ نیوز کے مطابق مقتول افراد میں سے پانچ کی شناخت ہو چکی ہے جن میں ورکشاپ کے مالک دلشاد، ان کا بیٹا نعیم، اور دیگر افراد جعفر، دانش اور ناصر شامل ہیں۔ یہ تمام افراد پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔
مہرسطان کا علاقہ ایران، پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہونے کے باعث طویل عرصے سے غیر یقینی صورت حال، سمگلنگ، جھڑپوں اور پرتشدد واقعات کا شکار رہا ہے۔ رواں حملے سے قبل بھی اپریل 2024 میں سوران-مہرسطان ہائی وے پر ایک حملے میں پانچ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایران کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی محنت کش مختلف شعبوں میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں، جن میں گاڑیوں کی مرمت اور زرعی کام شامل ہیں۔ تاہم، حالیہ واقعہ ایران کے مشرقی علاقوں میں بڑھتی ہوئی عدم تحفظ کی صورت حال اور وہاں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کو درپیش خطرات کو اجاگر کرتا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’ہول ناک اور قابلِ نفرت‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حملہ مشترکہ دشمنوں کی پاک-ایران تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔‘
وزیراعلیٰ نے مقتول افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور اظہار تعزیت کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے واقعے کی فوری اور شفاف تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا: ’بے گناہ لوگوں کا خون بہانے والے انسانیت کے کھلے دشمن ہیں۔‘