ابراہیم رئیسی، جو چار سال قبل تقریبا 1.6 کروڑ ووٹوں سے حسن روحانی سے ہار گئے تھے 20 جون کو ایران کے انتخابی مقابلے میں ملک کے نئے صدر بن گئے۔
اس فتح میں ان کے سب سے بڑے مخالف تین کروڑ سے زائد مسترد کیے جانے والے ووٹ تھے۔ ووٹوں کی یہ تعداد ابراہیم رئیسی کے بعد دوسرے نمبر پر تھی۔
ابراہیم رئیسی جو 1960 کی دہائی میں پھانسی کے اپنے ریکارڈ کے لیے مشہور تھے، ایک سینیئر عدلیہ اور سکیورٹی کے اعلیٰ اہلکار تھے جنہوں نے تقریبا 18 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ ایران کی وزارت داخلہ کی طرف سے شائع کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں حالیہ صدارتی انتخابات کے مقابلے میں ان انتخاب میں سب سے کم ووٹر ٹرن آؤٹ رہا۔ ان صدارتی انتخابات میں تقریبا چھ کروڑ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔
ان اہل رائے دہندگان میں سے نصف خواتین ہیں، جبکہ ابراہیم رئیسی کے انتخابی پروگراموں، ٹیلی ویژن پر مباحثوں اور اشتہاروں میں خواتین کا یا تو بہت کم یا نہ ہونے کے برابر حصہ تھا۔
ابراہیم رئیسی کی صاحبزادی ریحانہ رائیسی نے، جنہوں نے انتخابی مہم کے لیے اپنے والد کے نمائندے کی حیثیت سے ایک خصوصی نیوز ٹاک شو میں حصہ لیا تھا، خواتین کی سرگرمیوں کے بارے میں ابراہیم رئیسی کے خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’بعض اوقات لوگ یہ کہتے ہیں کہ خواتین کے لیے ان کا کیا منصوبہ ہے، لیکن بعض اوقات وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اب تک خواتین کے لیے کیا کیا ہے۔‘
ریحانہ رئیسی نے مزید کہا کہ ان کے والد نے ہمیشہ عدلیہ میں عہدوں پر خواتین کی موجودگی کو مضبوط کیا ہے، اور وہ یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں: ’آستان قدس رضوی میں، مزار سے قطع نظر جو خواتین لیے کھول دیا گیا، خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مزار کا سب سے بڑا اینڈوومنٹ گارڈن، جسے گارڈن آف ویمن کہا جاتا ہے، کھول دیا گیا۔‘ محترمہ رئیسی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ باغِ خاتون خواتین کے لیے کیا منصوبے رکھتا ہے اور صرف خواتین کی زیارت کے لیے دوبارہ کھولنے سے معاشرے میں خواتین کی موجودگی کو تقویت کیسے ملتی ہے۔
ریحانہ رئیسی نے ’وقار فاؤنڈیشن‘ کی سرگرمیوں کا بھی حوالہ دیا جو ابراہیم رئیسی کی کوششوں اور انقلابی گارڈز کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا جو جلد ہی صوبہ خراسان میں معاشی گروہ بن گیا، وضاحت کی: پورے ملک میں وقار فاؤنڈیشن کی جانب سے خواتین کو بااختیار بنانا اہم ذمہ داریوں میں سے ایک تھی۔ اس کی نے بنیاد انہوں نے رکھی، جہاں انہوں نے تین سال تک گوہرشاد ایوارڈ دیا۔ ’ہر سال اسلامی دنیا کی آٹھ خیرات دینے والی خواتین کو انعامات سے نوازا گیا اور یہ اقدام ان کے دور میں ہوا۔‘ ایران میں خواتین سے متعلق ان عمومیات کا اظہار کرنا، اس علاقے میں اس ایرانی معاشرے کے سب سے کمزور طبقے کے لیے ایک باضابطہ پروگرام کی کمی کو اچھی طرح سے ظاہر کرتا ہے۔
ریحانہ رئیسی نے دستاویز کی تفصیلات تو نہیں بتائیں لیکن اتنا کہا کہ ان کے والد نے ’اصلاحی دستاویز‘ میں خواتین کے حقوق کو شامل کیا تھا اور صرف اتنا کہا کہ ان کے والد نے عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے ’خواتین کے لیے بہت سے اچھے کام‘ کیے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابراہیم رئیسی نے گذشتہ دسمبر میں عدلیہ میں اپنے عہد صدارت کے دوران خواتین کے لیے کی جانے والی اہم سرگرمیوں کے بارے میں کہا تھا: ’ہم خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے عدلیہ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کی سلامتی کو یقینی بنانے اور خواتین کی وقار کو فروغ دینے کے لیے ایک مسودہ تیار کرنے جیسے اقدامات گذشتہ سال کیے گئے تھے جنہیں حکومت کو ارسال کیا گیا تھا۔‘
ابراہیم رئیسی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ایرانی نظام میں خواتین کی رضاکارانہ حجاب کو ’برا حجاب‘ اور ’معاشرتی نقصان‘ قرار دیا تھا۔
معاشرے میں خواتین سے متعلق چیلنجوں میں، ابراہیم رئیسی نے اپنی کسی بھی سرکاری ذمہ داری میں خواتین کی سماجی سرگرمیوں پر کبھی بھی کوئی تازہ نظر نہیں ڈالی۔ وہ ہمیشہ سے ہی حزب اختلاف کی قوتوں کو ختم کرنے کے منصوبے میں ایک انتہا پسند کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں، لیکن وہ خواتین کے معاملے میں لچکدار نہیں رہے ہیں۔ عام طور پر ان کے خیالات، جو ایران میں مروجہ نظریے سے ماخوذ ہیں، میں خواتین کو معاشرتی کردار نہیں دیا گیا ہے۔ اس معاشرے میں جہاں انقلاب کے بعد چار دہائیوں کے دوران ابراہیم رئیسی ایک اہم ستون تھے، حکومت اور سرکاری شعبے ہمیشہ ہی عورتوں سے عاری رہے ہیں۔
ایران میں گذشتہ 41 برسوں میں، محمود احمدی نژاد کی دوسری حکومت میں صرف ایک خاتون، مرضیہ وحید دستجردی واحد خاتون تھیں جو وزیر مقرر کی گئیں۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں ایران میں لڑکیوں کی یونیورسٹی میں داخلے کے امتحانات میں 60 فیصد نمائندگی رہی، لیکن ایران کے اعلیٰ رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے خواتین کے لیے زچگی اور بچوں کی دیکھا بھال کے علاوہ کسی بھی دوسرے کردار پر زور نہیں دیا ہے۔
ایران میں خواتین کو مختلف سماجی، سیاسی اور قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس بات کا امکان کم ہی محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کا ملک میں لگ بھگ 14 سال پر محیط سیاسی و معاشی سرگرمیوں کا ریکارڈ موجود ہے، عورتوں کے بارے میں ان کا واحد ’مثبت‘ اقدام شیعوں کے آٹھویں امام کے احاطے کو خواتین کے لیے کھولنا رہا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون اس سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوچکا ہے۔ یہ مضمون مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔