پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا دسویں ایڈیشن جاری ہے لیکن 10 سال گزرنے کے بعد ایک مجموعی تاثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کے لیے اس کی کشش بظاہر کم ہو رہی ہے۔
شائقین جو ذوق شوق سے کرکٹ دیکھتے تھے اب دیکھا گیا ہے کہ اتنی توجہ نہیں دیتے جو ماضی میں دی جاتی تھی۔ اکثر لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ملتے تھے کہ کہ آج کس ٹیم کا میچ ہے اور کون سی ٹیم سر محفل جگمگا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید ابھی ٹورنامنٹ کا تازہ تازہ آغاز ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ دلچسپی بڑھے۔
آج کل کراچی اور راولپنڈی میں اس کرکٹ کے سالانہ تہوار کے مقابلے جاری ہیں جبکہ لاہور اور ملتان میں آئندہ ہفتے سے میچز شروع ہوں گے۔
پی ایس ایل جسے پاکستان کی پہچان کہا جاتا ہے اور جس نے اس کی ’سافٹ پاور‘ کا اعزاز بھی پا لیا ہے جسے مختلف ادوار کی حکومتوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے ہمیشہ اس کی مثال پیش کی ہے۔ پی ایس ایل میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی شرکت سے وہ پاکستان کا ایک ایسا رخ پیش کرنا چاہتے ہیں جس میں امن اور استحکام کا نمونہ دکھا سکیں۔
غیر ملکی ستاروں سے سجی اور قومی ٹیم کے ستاروں سے مزین پی ایس ایل کے چہرے کی چمک دمک تاہم ماند پڑ رہی ہے۔
کراچی کیوں بےزار ہے ؟
اہلیان کراچی نے گذشتہ کئی سالوں سے روشنیوں سے سجے نیشنل سٹیڈیم کا رخ کرنا چھوڑا ہوا ہے۔ وہ کراچی جو کسی زمانے میں پانچ دن تک مسلسل ٹیسٹ میچ دیکھتا تھا آج چند گھنٹوں کے لیے بھی سٹیڈیم کی طرف نہیں آنا چاہتا۔ ایک وہ وقت تھا کہ لانڈھی سے لے کر اورنگی تک بسیں بھر کر نیشنل سٹیڈیم آتی تھیں اور اپنی پسندیدہ ٹیم کو شائقین کی ٹولیاں سراہتی تھی۔
کبھی سٹیڈیم میں ہر طرف زلمی کی زرد قمیصیں تو کبھی کنگز کے نیلے نیلے پلے کارڈز نظر آتے تھے۔ اب ان سٹینڈز میں آوارہ بلیاں اور گنے چنے وہ تماشائی نظر آتے ہیں جو کرکٹ سے زیادہ ایک قیدی کی رہائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
کراچی کیوں بیزار ہوگیا؟ جب لوگوں سے اس پر بات کی تو اکثر کا ایک ہی جواب تھا۔ اس گندگی سے اٹے سٹیڈیم میں جانے کو دل نہیں کرتا۔ لوہے کی گرل کے پیچھے سے میدان کا نظارہ، صفائی کا فقدان اور انتہائی مہنگی اشیائے خوردونوش سے بہتر ہے گھر پر میچ دیکھ لیا جائے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اگرچہ سٹیڈیم کی بہتری کے لیے بہت سے دعوے کیے تھے لیکن فقط ایک ایسی عمارت تعمیر کر کے سے جس کا مقصد محض ہاسپٹلٹی باکسز فروخت کرنا تھا عام آدمی کوئی فائد نہیں ہوا۔ بورڈ کراچی کو بھول چکا ہے۔ سٹیڈیم کے اطراف میں گندگی اور بے ڈھب عمارتوں نے سٹیڈیم کو آثار قدیمہ میں تبدیل کر دیا ہے۔
اب اس بوسیدہ سٹیڈیم کا رخ کون کرے گا؟
ریٹائرڈ کھلاڑیوں کا مجموعہ پی ایس ایل؟
اگر پڑوسی ملک کا میڈیا پی ایس ایل کو ’ریٹائرڈ کھلاڑیوں کا ڈریسنگ روم‘ کہہ رہا ہے تو کچھ غلط نہیں ہے۔ ڈیوڈ وارنر، کولن منرو، شعیب ملک، ڈیوڈویسا اور بہت سے دوسرے وہ ہیں جو کئی سال پہلے ریٹائر ہوچکے ہیں اور کوئی مسابقتی کرکٹ نہیں کھیلتے ہیں۔ اگرچہ چند ایسے کھلاڑی بھی موجود ہیں جو پاکستان کی قومی ٹیم کا حصہ ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ان کھلاڑیوں کی قومی ٹیم اور پی ایس ایل میں کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ایس ایل کا سب سے تاریک گوشہ نوجوان کھلاڑیوں کی قلت ہے۔ جو اکا دکا نوجوان آئے ہیں ان کا معیار بہت خراب اور ان میں بنیادی اصولوں سے کم آگاہی سامنے آئی ہے۔ ان کا فٹنس لیول بہت کم اور ان کا سٹیمنا باعث شرمندگی ہے۔ فیلڈنگ میں ان کی سستی بہت تکلیف دہ عمل ہے۔
دسویں ایڈیشن میں کون آگے؟
دسویں ایڈیشن کے پہلے ہفتے میں تادم تحریر سات میچ کھیلے جاچکے ہیں جن میں اسلام آباد یونائیٹڈ سب سے آگے نظر آتی ہے۔ اس کا سہرا صاحبزادہ فرحان کی بیٹنگ اور جیسن ہولڈر کی آل راؤنڈ پرفارمنس ہے۔
فرحان وہی ہیں جنہیں قومی ٹیم سے اس طرح باہر کیا گیا جیسے وہ کرونا وائرس ہوں۔ حالانکہ ان سے زیادہ ناکام رہنے والے عثمان خان ٹیم انتظامیہ کی آنکھوں کا تارا ہیں۔
فرحان پر سب دروازے بند ہیں۔ انہوں نے اس پی ایس ایل میں اب تک شاندار کارکردگی دکھائی ہے۔ ایک سنچری اور ایک نصف سنچری کے ساتھ وہ تین میچوں میں 184 رنز بناچکے ہیں۔ یونائیٹڈ نے تینوں میچ ان کے شانوں پر کھڑے ہوکر جیتے ہیں۔ ان کا ساتھ جیسن ہولڈر دے رہے ہیں جنہوں نے نو وکٹ لے کر بولنگ کو توانا کر رکھا ہے۔
پھر سونے پر سہاگہ گذشتہ شب ملتان کے خلاف ان کی برق رفتار 32 رنز کی اننگز جیت کا عنوان بن گئی۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم اس وقت سب سے متوازن نظر آرہی ہے جبکہ دوسرے درجہ پر سعود شکیل کی قیادت میں ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ہے۔
لیکن جن کے ستارے گردش میں ہیں وہ ملتان سلطانز اور پشاور زلمی ہیں۔ ان کے دو سپر سٹارز کپتان ہیں۔ رضوان دو میچ ہارے لیکن ایک سنچری بناگئے لیکن بابر اعظم سے نہ رنز بن رہے ہیں اور نہ کپتانی سنبھل رہی ہے۔ پشاور کا توازن بھی اسی وجہ سے خراب ہے۔ سارا زور اوپنرز پر ہے مڈل آرڈر بے کیف اور بے زار ہے۔
صائم ایوب کی بیٹنگ بھے متزلزل ہے۔ اگرچہ ابھی بہت میچز باقی ہیں لیکن تصویر کے خدوخال ابھرنے لگے ہیں۔ ایسا لگتا ہے پشاور کے ہاتھ اس سال بھی کچھ نہیں آئے گا۔ ویسے بدقسمتی صرف بابر کا تعاقب نہیں کر رہی بلکہ ڈیوڈ وارنر اور شان مسعود بھی اسی کشتی میں سوار ہیں۔
چند شاندار اننگز
دسویں ایڈیشن کو اگر ہار جیت کے زاویے کے بغیر دیکھا جائے تو کچھ اننگز قابل ذکر ہیں۔ جہاں جہاں پی ایس ایل دیکھی جارہی ہے وہاں اس کی چاشنی ابھی باقی ہے۔
محمد رضوان کی کراچی کنگز کے خلاف سنچری ایک شاندار اننگز تھی۔ ان کی سنچری کے باعث 234 کا مجموعہ قابل فتح تھا لیکن انگلینڈ کے جیمس ونس نے اس سے بھی بہتر اننگز کھیلی، سنچری بنائی اور میچ جیت لیا۔ یہ ایک ایسی اننگز تھی جو قابل دید تھی لیکن افسوس اس اننگز کو چند سو لوگ ہی دیکھ رہے تھے۔ ناقدری اپنے شباب پر تھی !!!
فخر زمان اور ڈیرل مچل کی کراچی کے خلاف شاندار اننگز بھی اب تک کے میچوں میں قابل داد ہے۔
بولنگ میں قلندرز کے رشاد حسین اور یونائیٹڈ کے کپتان شاداب خان بھی فتوحات میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دونوں چھ چھ وکٹ لے کر بہترین بولرز میں شامل ہیں۔
پی ایس ایل میں ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ امید ہے بہت سے سنسنی خیز مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔ فلک شگاف چھکے اور اڑتی ہوئی وکٹیں بھی نظر آئیں گی۔ کسی کے چہرے پر سرخی اور کسی کے چہرے پر زردی کی جھلک ہوگی لیکن ان سب سے ہٹ کر جس کمی کو سب محسوس کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ پی ایس ایل کی کشش ختم ہو رہی ہے۔
بہت سارے دعووں کے باوجود اتنا بڑا ایونٹ کسی ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کی جھلک پیش کررہا ہے۔
کیا واقعی پی ایس ایل کا جادو ختم ہو رہا ہے؟ آپ کی اس بارے میں رائے کیا ہے؟
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔