دونوں ہمسائیہ ممالک کے درمیان حالیہ برسوں میں نرم گرم تعلقات اور رابطوں میں تعطل کے بعد پاکستان اور افغانستان کے وفود بیک وقت کابل اور اسلام آباد میں موجود ہیں۔
افغان وزارت تجارت و صنعت کے وزیر نورالدین عزیزی ایک اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کرتے ہوئے 16 اپریل کو اسلام آباد پہنچے تھے۔ خیال ہے کہ نورالدین عزیزی نے ہی بیک ڈور رابطوں میں سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ وہ پاکستان آمد سے قبل کابل میں پاکستانی چارج ڈی افیئر عبیدالرحمٰن نظامانی سے ملے تھے۔ جس کے بعد عبوری افغان وزیر خارجہ کی نظامانی سے ایک ملاقات 14 اپریل کو ہوئی تھی۔
افغانستان وزارت خارجہ کے مطابق آج ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں افغانستان کے بین الوزارتی وفد کی قیادت افغانستان کے وزیر برائے صنعت و تجارت، معالی الحاج نورالدین عزیزی نے کی، جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی پاکستان کے وزیر برائے تجارت، معالی جام کمال خان نے کی۔
دونوں جانب سے دوطرفہ تجارت، ٹرانزٹ تعاون، موجودہ چیلنجز، ممکنہ حل اور باہمی دلچسپی کے دیگر اہم امور پر جامع گفتگو کی گئی۔
دونوں ممالک کے تکنیکی ماہرین کے درمیان الگ الگ ملاقاتیں بھی متوقع ہیں تاکہ موجودہ چیلنجز کے مناسب حل تلاش کیے جا سکیں اور دوطرفہ تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔
اس موقع پر افغانستان کے نائب وزیر برائے مہاجرین و واپسی، معالی شیخ کلیم الرحمٰن فانی نے افغان تارکین کی موجودہ صورتحال اور جبری واپسی کے مسئلے پر بیان دیا۔
انہوں نے پاکستان کی جانب سے گذشتہ چار دہائیوں سے افغان شہریوں کی میزبانی پر اس فراخدلانہ رویے کو سراہا اور کہا کہ جبری ملک بدری جیسے اقدامات اس طویل المدتی خیرسگالی کو متاثر نہ کریں۔ انہوں نے افغان مہاجرین کی باوقار، تدریجی اور انسانی بنیادوں پر واپسی کی اپیل کی جو پاکستان کی مہمان نوازی کی روایت کے عین مطابق ہو۔
باختر ایجنسی نے وزارت صنعت و تجارت کے اعلامیے کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس وفد میں نائب وزیراعظم برائے اقتصادی امور دفتر، سرمایہ کاری میں سہولت کاری کے ادارے، وزارت خارجہ، مالیات، پناہ گزین و واپس آنے والوں کے امور، ٹرانسپورٹ و سول ایوی ایشن، زراعت، آبپاشی و مالداری، اور نجی شعبے کے نمائندے شامل ہیں۔
وفد کے اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت، ٹرانزٹ، اور ٹرانسپورٹ کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لینا اور ان کا حل تلاش کرنا، نیز پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں سے متعلق مسائل پر بات چیت کرنا بتایا گیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کل کابل پہنچے ہیں۔ انہوں نے طالبان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے۔
ایک سال سے زائد عرصے کے بعد پاک افغان جائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ملاقات میں ڈیورنڈ لائن سے متعلق تنازعات کو حل کرنے اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان سہولتیں پیدا کرنے پر بات ہوگی۔ دونوں ممالک کے درمیان جے سی سی کا یہ ساتواں اجلاس ہے جو ایک بار اسلام آباد اور ایک بار کابل میں ہوگا۔
امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ جے سی سی کے فورم نے ہمیشہ مسائل حل کیے ہیں۔ اس اجلاس میں سکیورٹی معاملات، تجارت، ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی (ٹی ٹی پی اور افغان پناہ گزینوں) کے ساتھ ساتھ لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بنانے پر بات چیت ہوگی۔
جے سی سی کا آخری اجلاس جنوری 2024 میں ہوا تھا جب گورنر قندھار ملا شیریں اور ڈپٹی انٹیلی جنس وزیر نے افغان وفد کی قیادت کی تھی۔ اس بار افغان وفد کی قیادت ڈپٹی وزیر دفاع ملا عبدالقیوم ذاکر کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذاکر امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف لڑائی کے دوران افغان طالبان کے ملٹری کمیشن کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
ملا اختر منصور کے تحریک طالبان کے امیر بننے کے وقت یہ امارت کے مضبوط امیدوار تھے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی نے ان کو امیر نہیں بننے دیا۔
عبدالقیوم ذاکر کا تعلق افغانستان کے بلوچ آبادی والے صوبے ہلمند سے ہے۔ ان کے القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلقات سمجھے جاتے ہیں۔ نوے کی دہائی میں ڈاکٹر ایمن الظواہری نے ذاکر کو 150 گاڑیوں کا تحفہ بھی دیا تھا۔
القاعدہ کے موجودہ ڈی فیکٹو سربراہ سیف العدل کو بھی عبدالقیوم ذاکر نے مغوی ایرانی سفارت کار حشمت اللہ عطر زادے کے تبادلے میں رہا کرایا تھا۔ ذاکر امریکہ کی قید میں بھی رہے ہیں جنہیں عبدالرشید دوستم نے قید کیا تھا۔ ان کے بلوچ عسکریت پسندوں اور سیاست دانوں سے اچھے تعلقات ہیں۔
ان کے ایران کے ساتھ بھی قریبی اور اچھے روابط رہے ہیں جس کی بڑی وجہ ان کا بڑے عرصے تک ایران میں قیام بھی ہے۔ عبدالقیوم ذاکر جے سی سی اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کے لیے ایک ہیوی ویٹ شخصیت سمجھے جاتا ہیں۔
محمد صادق خان نے کہا کہ عنقریب پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ جناب محمد اسحاق ڈار کابل کا دورہ کریں گے، اور امید ظاہر کی کہ یہ دورہ دونوں فریقین کے لیے مثبت نتائج کا حامل ہوگا۔
پاکستان کی افغان طالبان حکومت کو نئی پیشکش
اسلام آباد میں سفارتی حلقوں کے مطابق پاکستان نے افغانستان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے ایک نئی تجویز پیش کی ہے۔ اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن نہیں کر سکتے ہیں تو نہ کریں کم از کم ان کے خودکش مراکز بند کرائیں اور ان کو پاکستان کے اندر کارروائیوں سے روک دیں۔
یہ وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے بہتر بنانے کو تیار ہے۔
حالیہ دنوں میں افغانستان کے ساتھ تعلقات بحالی کے لیے کوششوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ محمد صادق خان چند ہفتے قبل بھی کابل کا دورہ کرچکے ہیں۔
توقع ہے کہ پاکستان کے ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیرخارجہ اسحٰق ڈار بھی جلد کابل کا دورہ کریں گے۔
پاکستانی ناظم الامور سے ملاقات میں متقی نے سوشل میڈیا پر چلنے والی کئی ویڈیو بھی شیئر کیں جو افغانوں کے ساتھ پاکستان میں ہونے والے سلوک کے حوالے سے تھیں۔ اس پر پاکستانی حکام کا جواب تھا کہ آپ سوشل میڈیا ویڈیوز پر یقین نہ کریں متاثرہ لوگوں کو سامنے لائیں ان کے ساتھ زیادتی کا ازالہ کیا جائے گا۔
پاکستان افغان پناہ گزینوں کے انخلا پر بظاہر یکسو ہے۔
زلمے خلیل زاد کا بیان
پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان کے دورہ کابل کے موقعے پر افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کی آڑ میں داعش کے شدت پسندوں کو افغانستان بھیج رہا ہے۔
انہوں نے بدھ (16 اپریل) کو اپنے ایکس اکاونٹ پر لکھا: ’باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں تشویش ہے کہ پاکستانی انتظامیہ افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری (ISIS) کے دہشت گردوں کو افغانستان منتقل کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ مجھے بھی یہی تشویش ہے۔‘
خلیل زاد کے تبصرے سے دو روز قبل پاکستانی وزیر اعظم نے لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے لیے بہترین مشورہ یہ ہے کہ وہ ’عسکریت پسند گروپوں کو جلد از جلد کنٹرول کرے اور اپنی سرزمین کو ان کے استعمال کے حوالے نہ کیا جائے۔‘
پاکستانی حکام اور افغانستان میں طالبان کی حکومت نے ہمیشہ اپنی سرزمین پر داعش کی موجودگی کی تردید کی ہے۔