پدرسری کی آسان سی تعریف یہ ہے کہ اس نظام میں باپ خاندان کا سربراہ ہوتا ہے، لیکن جرمن ماہرِ سماجیات اور فیمینسٹ ماریہ میس نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے پدرسری نظام کا مطلب مرد کی برتری اور سربراہی ہے جس کے نتیجے میں قتل وغارت گری، جنگ وجدل اور لوٹ مار ہوتی ہے۔
پدرسری نظام کے بارے میں دو نقطۂ ہائے نظر ہیں۔ ایک اشتراکیت اور دوسرا تحریک نسواں کا۔
کارل ماکس کے قریبی ساتھی اور اشتراکی نظریات کے بانیوں میں سے ایک فریڈرک اینگلز کے مطابق، پدرسری کی بنیادیں اس وقت مضبوط ہوئیں جب نجی جائیداد کا ادارہ وجود میں آیا، جس کی وجہ سے عورت کی ذمہ داری ٹھہری کہ وہ اس کا جانشین پیدا کرے۔
اس نے عورت کو مرد کی ملکیت بنا کر اسے اخلاقی بندھنوں میں باندھ کر گھر کی چاردیواری میں بند کر دیا۔ عورت کی حیثیت جو اب تک مرد کے مساوی تھی، تبدیل ہو کر اس کے تسلط میں آ گئی۔
تحریک نسواں کے نقطۂ نظر سے پدرسری انسانی تاریخ کے ارتقا کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ مرد اورعورت کے درمیان فرق کو ذرائع پیداوار نے پیدا کیا۔ غذا کے حصول کے لیے مرد کے پاس ہتھیار تھے جن سے وہ شکار کرتا تھا اور جو تشدد اور قتل کی علامت تھے، جبکہ عورت کاشت کے ذریعے غذا فراہم کرتی تھی، اسے مٹی کے برتنوں میں محفوظ رکھتی تھی اور کھرپی اور دوسرے آلات سے زمین کھود کر تیار کرتی تھی۔
اس عمل نے مرد اور عورت کے کردار کوعلیحدہ علیحدہ کر دیا۔ مرد طاقت کی علامت بن گیا اورعورت امن کی۔ اس تاریخی عمل نے پدرسری کو طاقت کی بنیاد پر مضبوط کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لہٰذا تاریخی طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرد کا عورت پر حاکمیت اختیار کرنا اس کے ہتھیاروں کی مدد سے تھا اور نجی جائیداد نے اس کو مرد کا مزید محکوم بنا دیا۔
جاگیردارانہ نظام میں جس طرح وہ زمین کا مالک تھا اسی طرح سے وہ عورت کے جسم کا مالک ہو گیا کہ وہ خاندانی نسل کو برقرار رکھنے کے لیے جانشین مرد پیدا کرتی رہے۔
زراعتی معاشرے میں اس کی حیثیت مال مویشی کی مانند تھی جو زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرکے خاندان کو مضبوط کرتی تھی۔ اس مرحلے پر عورت کو فطرت کا ایک حصہ بنا کر مذہب اور اخلاقیات نے یہ ذمہ داری دی کہ وہ اس کی نگرانی اور حفاظت کرے۔
پدرسری کے زیراثر عورت کو بطور تجارتی شے بنا کر اس سے جسم فروشی کا کام لیا گیا۔ شادی کے نتیجے میں بیوی مرد کی ملکیت بن گئی اور اس پر سختی کے ساتھ عمل کیا گیا کہ اس کے کسی دوسرے مرد سے جنسی تعلقات نہ ہوں۔ بصورت دیگر اس کو سخت سزا دی جاتی تھی، جن میں سنگساری، عزت کے نام پر قتل اور بعض صورتوں میں زندہ دفن کرنا جیسی سزائیں شامل تھیں۔
مرد اپنے سیاسی اور سماجی مفادات کے تحت عورتوں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ خاص طور سے حکمران طبقوں میں سیاسی تعلقات کو بہتر اور خوشگوار بنانے کے لیے حکمران ایک دوسرے کے خاندان میں شادیاں کرتے تھے۔
اکبر نے راجپوتوں سے اپنے سیاسی تعلقات مضبوط کرنے کے لیے کئی راجپوت شہزادیوں سے شادیاں کیں۔ اس کے جانشینوں میں بھی یہ رسم جاری رہی کہ وہ راجپوت خاندانوں میں شادیاں کرکے انہیں اپنے خاندان کا حصہ بنا لیتے تھے۔
جنگ کے موقع پر فاتح شکست خوردہ حکمران کے مال غنیمت کے ساتھ ساتھ اس کے حرم کی عورتوں کو بھی قبضے میں لے لیتے تھے۔
یہ دستور بھی تھا کہ عورتوں کو بطور کنیز یا لونڈی حکمرانوں کو بطور تحفہ دیا جاتا تھا۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ عورتوں کو ان کی مرضی کے خلاف سیاسی فوائد کے لیے بیاہ دیا گیا۔
بابر کی بہن خانزادہ بیگم کی شادی اُزبک حکمران شیبانی خاں سے اس شرط پر ہوئی کہ وہ بھائی کو ثمر قند سے فرار ہونے کی اجازت دے دے۔ آسٹریا کی شہزادی لوئیس نے نپولین سے اپنی مرضی کے خلاف شادی کی تاکہ اپنے ملک کو اس کے حملوں سے محفوظ رکھ سکے۔
پدرسری کی وجہ سے سماج مردانہ اور زنانہ حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ مرد کے لیے باہر کی دنیا کھلی ہوئی ہوتی ہے، لیکن عورت گھر میں محصور ہو کر باہر کی دنیا سے ناواقف ہو جاتی ہے۔
عورت کے لیے یہ لازمی ٹھہرا کہ وہ اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کرے، اگر وہ اغوا ہوتی ہے یا اس کی عصمت دری کی جاتی ہے تو اسے بھی عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے اور اس لیے مرد پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ اس پر پوری نظر رکھے تاکہ وہ اپنی نسوانیت کو برقرار رکھ سکے۔
خود ’عصمت دری‘ یا ’آبروریزی‘ جیسے لفظ اسی نظام کا شاخسانہ ہیں۔ یعنی ایک عورت کے ساتھ کسی مرد نے درندگی کی، لیکن عزت و آبرو عورت ہی کی پامال ہوئی۔
پدرسری سماج ہر ادارے میں پوری طرح سے نظر آتا ہے۔ عورت اور مرد کے اس فرق کو ہم تعلیمی اداروں، دفتروں، فیکٹریوں اور سماجی محفلوں میں واضح طور پر دیکھتے ہیں جہاں عورتوں کو مردوں سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔
بہت سے ایسے پیشے ہیں جن کے بارے میں یہ خیال ہے کہ یہ صرف مرد کر سکتے ہیں۔ عورتوں کو پدرسری روایات کا احساس دلا کر کمتری میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور وہ اس نظام کی پابندی کو اپنا شعار بنا لیتی ہیں۔ اسے تبدیل کرنا یا چیلنج کرنا یہ سب روایات کے خلاف ہو جاتا ہے، لہٰذا وہ اسی ماحول میں خود کو ڈھال لیتی ہیں۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پدرسری کو چیلنج بھی کیا جا رہا ہے اور اس کی تاریخی جڑوں کو اکھاڑ کر اسے کمزور کرنے کی تحریکیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ مادرسری کی وہ روایات جو گم ہو گئی تھیں، اُبھر کر سامنے آرہی ہیں اور آج کے معاشرے میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے برابر ہونے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔