نصابی کمیٹی پر تعینات کیے جانے والے علما کی جانب سے پچھلے دنوں ایک بیان جاری ہوا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے کردار کو صرف اسلامیات، سماجیات اور اردو تک محدود نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنا دائرہ اثر کو سائنسی مضامین کی نگرانی تک بھی پھیلائیں گے۔ تیار رہیں، اب تو پاکستان سائنس کی نئی منزلیں طے کرنے والا ہے۔
کمیٹی کی جانب سے نصابی کتب کے ناشروں کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ آئندہ انسانی جسم کے کسی اندرونی اعضا کی اشکال یا تصاویر نہیں چھاپ سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ بنا کہ ہمارے سکولوں میں نظام تولید اور نظام انہضام حیاتیات کی کتابوں سے حذف کیے جائیں گے۔ گویا کہ شرم و حیا کی بنا پر اب یہ ممکن نہیں ہو سکے گا کہ استاد یہ بتا سکے کہ خوراک جسم میں کیسے داخل ہوتی ہے، پھر کیسے ہضم کی جاتی ہے اور اس کا اخراج کہاں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ سوال کہ انسانی نسل کیسے اور کن جسمانی اعضا کی بدولت آگے بڑھتی ہے پہلے بھی ایک بھید تھا، جس کا ذکر سرگوشیوں میں ہی کیا جاتا ہے، لیکن اب تو یہ ایک ایٹم بم کے راز کے برابر ہو جائے گا۔
پھر بھی شاید ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ بیشتر علما نے یہ مان لیا ہے کہ زمین چپٹی نہیں ہے اور نہ یہ ساکن ہے، بلکہ یہ ایک ایسا کرّہ ہے جو سورج کے گرد گھومتا ہے۔ چلیے دیر آید، درست آید، لیکن یہاں جو آبادی کا بم پھٹ رہا ہے، اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جن میں فی کس آبادی اس تیز رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ ہم دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شرم و حیا کے سبب ہم اپنے عوام کو یہ نہیں بتا سکتے کہ بچوں کی پیدائش روکنے کی ترکیبیں کیا کیا ہیں اور جس وزارت کا یہ کام تھا، ہم نے اس کا وجود ہی ختم کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس شرم و حیا کا بوجھ سب سے زیادہ تو خواتین کو اٹھانا پڑتا ہے۔ مثلاً عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چھاتی کا سرطان سب سے زیادہ عام ہے اور ہر سال اس کے سبب 40 ہزار اموات ہوتی ہیں۔ لیکن چونکہ عورت کی چھاتی کا ذکر معیوب ہے، اس لیے چھاتی کے سرطان کی بات بھی نہیں ہو سکتی۔ اسی شرم و حیا کے نام پر خواتین کو اکثر اوقات بنیادی طبی سہولیات سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا گل نصیب خان، جو کبھی متحدہ مجلس عمل کے سیکریٹری ہوتے تھے، انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ کوئی خاتون کسی مرد ڈاکٹر یا ٹیکنیشن سے اپنا الٹراساؤنڈ، ایکسرے یا ای سی جی نہیں کرا سکتی۔ چونکہ خیبر پختونخوا میں خواتین ڈاکٹر اور ٹیکنیشنز نہ ہونے کے برابر ہیں، نتیجے میں ہزاروں عورتوں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا کا استدلال تھا کہ اگر طبی آلات سے کسی عورت کے جسم کے اندرونی اعضا دیکھے جائیں تو اس سے مردوں کی جنسی ہوس بھڑک اٹھے گی۔
ہمارے علما بے پردگی کو تمام سماجی خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں، لیکن مدارس میں بچوں اور نوجوانوں کے جنسی استحصال پر مکمل چپ سادھ لیتے ہیں۔ حال میں مفتی عزیز الرحمٰن کا واقعہ منظر عام پر آیا ہے، جسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، لیکن چونکہ وہ ویڈیو وائرل ہو چکی تھی، اس لیے پردہ پوشی ناممکن ہو گئی۔ منہ بولتا ثبوت موجود ہونے کے باوجود علمائے کرام کی اکثریت نے جانے کس مصلحت سے خاموشی اختیار کی۔ کسی مذہبی جماعت کے قائد نے اس پر تبصرہ کیا اور نہ یہ تقاضہ کیا کہ اس مفتی کو مثالی سزا دی جائے۔
وقتاً فوقتاً اس موضوع پر بات ہوتی رہتی ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال سے بچاؤ کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ ان میں آگہی اور اعتماد پیدا کیا جائے یعنی وہ یہ جانیں کہ کون سا فعل ٹھیک ہے اور کون سا غلط، اور یہ کہ کس صورت حال میں انہیں اپنا تحفظ کیسے کرنا ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بنیادی جسمانی حقائق سے واقف ہوں مگر یکساں قومی نصاب اس آگاہی کی اجازت نہیں دیتا۔ علما کی نگرانی میں جو تعلیم سکولوں میں دی جائے گی، وہ ہمارے بچوں کو اس فہم سے لاعلم رکھے گی اور یوں آگہی ممکن نہ ہو سکے گی۔
دنیا کے دوسرے مسلمان ممالک، بشمول سعودی عرب، مستقبل پر اپنی نظریں رکھے ہوئے ہیں، لیکن ’نیا پاکستان‘ آج بھی ماضی کی سمت سفر میں ہے۔ یہ ہمارے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے۔