افغانستان بہت تیزی سے تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’نیا افغانستان‘ کیسا ہو گا اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟
جب ہم اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کچھ اور سوالات بھی ساتھ چل پڑتے ہیں۔
امریکہ نے افغانستان میں افواج پر اربوں ڈالر خرچ کیے اور ایک طاقتور اور تربیت یافتہ فوج پیچھے چھوڑ گیا۔ لیکن اس کے باوجود طالبان بغیر کسی مزاحمت کے قریباً 85 فیصد افغانستان پر قابض ہو گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے سامنے مزاحمت کیوں نہیں کی گئی؟ کسی تصادم کے بغیر طالبان کی پیش قدمی محض اتفاق سمجھا جائے یا اس میں کچھ ’حسنِ اتفاق‘ بھی شامل ہے؟
افغان فوج ہی نہیں افغان وار لارڈز بھی ان دو عشروں میں امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے اور انہوں نے غیر معمولی وسائل حاصل کیے لیکن یہ سب مل کر بھی تاحال کسی مزاحمت کو جنم نہیں دے سکے۔ یہ کیا معمہ ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب کی بار طالبان پیش قدمی سے پہلے کچھ بڑی بین الاقوامی قوتوں سے معاملہ کر چکے ہوں؟
بظاہر تو حساسیت کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا فورمز پر لوگ طالبان کا نام تک نہیں لکھ رہے اور اس کی جگہ ’ سٹوڈنٹس‘ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں کہ کہیں ان کے اکاؤنٹ پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام نہ آ جائے لیکن دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ جیسی عالمی قوت نے قطر میں دوحہ معاہدہ انہی ’سٹوڈنٹس‘ کے ساتھ کیا ہے۔ ایک عالمی قوت جب ایک ’نان سٹیٹ ایکٹر‘ کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتی ہے تو وہ ’نان سٹیٹ ایکٹر‘ کو بین الاقوامی سطح پر گویا ایک فریق تسلیم کر لیتی ہے۔
طالبان کی حیثیت اور ساخت کو سمجھنا ہو گا۔ کیا یہ وہی طالبان ہوں گے جو 20 سال قبل تھے اور کیا ان کے پاکستان کے ساتھ تعلق کی نوعیت بھی وہی ہو گی جو نائن الیون سے پہلے ہوا کرتی تھی؟
20 سال پہلے کے طالبان کی بڑی تعداد پاکستانی مدارس سے پڑھی تھی۔ اب وہ صورت حال نہیں ہے۔ 20 سالوں میں ایک نسل جوانی سے آگے جا چکی اور ان کی جگہ نئی نسل لے چکی۔ اس نئی نسل کے ہمراہ اپنے تجربات ہیں اور اپنے مشاہدات، جو اتنے خوش گوار نہیں ہیں۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر کریں گے۔
20 سال پہلے طالبان کا پاکستان سے تعلق کچھ اور تھا۔ تب انہیں دنیا میں صرف تین ممالک نے تسلیم کیا تھا جن میں سے ایک پاکستان تھا۔ تب ان کا پاکستان پر انحصار بہت زیادہ تھا۔ وہ دور اب تمام ہو چکا۔ اب وہ ایک ایسی حقیقت ہیں جس کا انکار ممکن نہیں۔ اب یہ عالم ہے کہ افغانستان میں حکومت اشرف غنی کی ہے لیکن امریکہ جیسی سپر پاور قطر میں مذاکرات اور معاہدہ طالبان سے کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان اگر اب تک مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھے اور اب وہ کامیابی سے پیش قدمی کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کچھ ممالک کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت اب بدل چکی ہے۔ تب روس اور چین کے ساتھ ان کے تعلقات نہیں تھے اب ہر دو کے ساتھ ان کے کافی اچھے تعلقات ہیں۔ تب ایران کے ساتھ ان کا تناؤ چل رہا تھا اب وہ ایران کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حالیہ پیش قدمی سے پہلے طالبان نے کچھ قوتوں کو یا کچھ قوتوں نے طالبان کو ’ انگیج‘ کیا ہے۔ خطے کی سیاست میں اب وہ اکیلے نہیں، ان کے ساتھ کچھ اور حلیف بھی ہیں۔ ان حلیفوں کے ہوتے ہوئے انہیں پہلے کی طرح پاکستان کی محتاجی نہیں ہے۔ ان کے پاس اب پہلے سے کہیں زیادہ آپشنز موجود ہیں۔
طالبان کا فکری پوٹینشل بھی قابل غور ہے۔ عرب دنیا میں اسلام سے وابستگی بھی ہے اور عرب شناخت پر فخر بھی۔ اسی طرح ایران میں اسلام کی بات بھی کی جاتی ہے اور ایرانی النسل ہونا بھی وجہ فضیلت ہے۔ ایسا ہی امتزاج ترکی میں بھی ہے جہاں اسلام سے وابستگی بھی ہے اور ترک قومیت پر فخر بھی پایا جاتا ہے۔ طالبان بھی آگے چل کر قوم پرست مذہبی کمبی نیشن کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کہیں تناؤ آیا تو پشتون بیلٹ میں پاکستان کے لیے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
لیکن اس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں کہ پاکستان سے ان کے تعلقات کشیدہ رہیں گے۔ اس وقت اگر انہیں پاکستان کی ماضی کی طرح ضرورت نہیں تو پاکستان بھی اپنے تجربات کی وجہ سے افغانستان میں محتاط ہے اور سب کے لیے خیر خواہی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ خطے میں ’سپر پاور وار‘ کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور پاکستان اپنے علاقے کو میدان جنگ بنانے سے روکنا چاہتا ہے۔
اس خطے میں جتنا الاؤ بھڑکے گا سی پیک کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہو گا۔ سی پیک سے جڑے امکانات چین کے لیے جتنے ناگزیر ہیں اس کے حریفوں کے لیے اتنے ہی نا پسندیدہ ہیں۔ چین کے حریف اگر چین کی معاشی پیش قدمی کو روکنے کے لیے خطے کو Boil کرتے ہیں تو چین کے لازم ہے کہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے کوشاں رہے۔ اس کاوش میں چین اور روس وغیرہ اگر طالبان وغیرہ کو انگیج کرتے ہیں تو بین السطور پاکستان انہی کوششوں کا حصہ سمجھا جائے گا۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار جب سر پر لٹک رہی ہو تو براہ راست ان معاملات میں پڑنا پاکستان کے لیے ویسے ہی فائدہ مند نہیں۔
خطے کی دیگر بڑی قوتوں کے ساتھ طالبان کا اشتراک عمل جہاں طالبان کو پاکستان سے بے نیاز کر چکا ہے وہیں یہ پاکستان کسی غیر ضروری بین الاقوامی دباؤ سے بھی محفوظ رکھے گا۔ چین اور روس وغیرہ کا معاملہ مختلف ہے۔ ان پر دباؤ آیا تو وہ اس سے نبٹ بھی لیں گے۔ اب یہاں اکیلے اکیلے کوئی ملک بروئے کار نہیں آ رہا۔ اب کنسورشیم کی صورت معاملات طے ہوں گے۔ امکان یہ ہے کہ پاکستان کا بوجھ مقامی کنسورشیم شیئر کرے گا۔