یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
جنوبی ایشیا کے اطراف میں اس وقت جو ہر پل تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کے اثرات کشمیر کی تحریک پر مرتب نہ ہوں اس بات کو جھٹلانا اپنے وجود سے غافل رہنے کے مترادف ہے۔
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، چین کا لداخ میں گھسنا، بھارت کے طالبان کے ساتھ ناکام رابطے، طالبان کا ترکی کو کابل میں اپنی موجودگی کو محدود رکھنے کا مشورہ، پاکستان کا اپنی سرحدوں پر باڑ لگا کر مزید گشت بڑھانا اور روس کا اس سارے عمل میں خاموش کردار ادا کرنا خطے میں جاری نئی کشیدگی کا ایک واضح پیغام ہے۔
اس سے نہ صرف ایک بار پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے بلکہ اس سے جڑے تمام ممالک میں اندرونی خلفشار پیدا ہونے کا امکان بھی جتایا جا رہا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ امریکی فوج کا رات کے اندھیرے میں بگرام اڈے سے نکلنا یا طالبان کی طاقت کو تسلیم کرنا کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونکنے کا ضامن بن سکتا ہے جس کی کڑی 1978 میں ایران میں انقلاب اور 1989 میں سویت یونین کی افغان مجاہدین کے ہاتھوں زبردست شکست سے بھی ملتی ہے۔ اس وقت کشمیر کی تحریک آزادی نے کئی دہائیوں تک پرامن رہنے کے بعد مسلح شورش کا رخ اختیار کیا تھا۔
اس بات کے کوئی مستند شواہد نہیں ملے ہیں کہ افغان مجاہدین یا طالبان کشمیر کی مسلح تحریک میں کبھی شریک رہے ہیں یا نہیں۔ تاہم بھارت نے کئی بار اس کا الزام عائد کیا ہے لیکن بقول ایک ہندوستانی محقق شعیب الدین ’پڑوس کی اسلامی تحریکوں سے کشمیر ہمیشہ متاثر ہوتا رہے گا کیونکہ ہندوتوا کے مقابل میں جاری اپنی سیکولر تحریکیوں کا اسے کوئی ثمر حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ اب تو ہندوستانی مسلمان بھی ہندوتوا کی زد میں آ کر طالبان کی جانب دیکھنے لگا ہے۔‘
طالبان کی جو نئی لہر افغانستان کے سیاسی افق پر ابھر رہی ہے یا انہیں اتحادی قوتوں نے بظاہر افغانستان پر براجمان ہونے کا اشارہ دیا ہے، حالات سنبھلنے کی صورت میں مستقبل میں کشمیر میں ان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
طالبان اُمّہ کی پاسداری کے جس نظریے کی آبیاری کرتے آئے ہیں وہاں یہ جدوجہد افغان سرحدوں تک محدود نہیں رہ سکتی۔ اگرچہ طالبان کی نئی لیڈرشپ کے بارے یہ سوچ گہری ہے کہ اس نے امریکہ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ اپنے ملک کے تعمیر نو پر مرکوز کرے گی اور کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اس بات کو کئی بار دہرایا ہے کہ وہ کشمیر کی تحریک میں کبھی شامل نہیں ہوں گے اور نہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں گے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے سوشل میڈیا پر پرانی خبریں چلائی جا رہی ہیں کہ ’بھارت کے ساتھ اس وقت تک تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے جب تک نہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرتا ہے۔‘ ان سے منسوب یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ طالبان نے عزم کیا ہے کہ ’وہ کابل کو فتح کرنے کے بعد کشمیریوں کو بھارت سے آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارتی میڈیا نے ان غیر مستند خبروں کی خوب تشہیر کی بلکہ ذرائع ابلاغ نے قطر میں طالبان کے رہنما ملا عباس ستانکزئی پر نشانہ سادھا کہ انہوں نے بھارت کے خلاف سخت بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’بھارت اشرف غنی کی کاغذی سرکار کی حمایت کرنے سے اپنا نقصان کر رہا ہے۔‘
اس کے جواب میں کابل میں وزارت خارجہ نے فورا ایک بیان جاری کرتے ہوئے بھارت کی افغانستان کی تعمیر نو میں اور قیام امن کی کوششوں میں اس کے کردار کو سراہا۔
اس بیان کے چند روز بعد ہی بھارت نے اپنے سو سے زائد سفارتی اہلکاروں کو دہلی واپس بلایا اور ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق اشرف غنی کی حکومت کے لیے اسلحہ کابل روانہ کیا۔
پاکستان کو طالبان کے قریب تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن افغان امور کے ایک ماہر پیٹر مارکس کہتے ہیں کہ ’طالبان کی نئی قیادت پر پاکستان کا اتنا اثر رسوخ نہیں ہے جتنا ملا محمد عمر کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کے بیچ بات چیت میں اہم کردار ادا تو کیا مگر اس بار اپنا کوئی فارمولہ تھوپنے میں ناکام ہوا۔
سابق قبائلی علاقوں اور سرحدی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے پاکستانی افواج پر حملوں کے بعد پاکستان کے دفاعی ادارے کافی محتاط ہیں۔ پاکستان کی اس وقت ترجیح ہے کہ افغانستان کی اندرونی شورش اس کی سرحدوں تک نہ پھیلے۔ ایسے موقعے پر کشمیر کی تحریک میں طالبان کی مداخلت یا دلچسپی بے معنی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں طالبان لیڈرشپ اب تک احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہے۔‘
تاہم یہ خدشہ اپنی جگہ قائم ہے کہ افغانستان پر اگر طالبان کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور امریکہ سمیت دوسرے ممالک ان کو تسلیم بھی کرتے ہیں تو وہ نہ صرف کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کر یں گے جیسے چند مسلم ممالک کرتے آ رہے ہیں بلکہ وہ کشمیریوں کی دوبارہ مسلح تحریک شروع کرنے کے محرک بھی بن سکتے ہیں۔
طالبان خود اس تحریک میں شامل ہوں گے یا نہیں، اس کی ذمہ داری بھارت پر ہوگی کہ وہ طالبان کے ساتھ کس طرح کا تعلق قائم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ کیا وہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہندوتوا پالیسی برقرار رکھتا ہے اور موجودہ پس منظر میں پاکستان کے ساتھ مفاہمت کا کوئی راستہ اختیار کرتا ہے یا نہیں۔