کرونا وائرس کی چوتھی لہر آ چکی ہے لیکن پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابی مہم بھر پور انداز سے جاری ہے۔
سوال یہ ہے کیا کرونا نے تمام سیاسی جماعتوں کویقین دلا رکھا ہے کہ وہ جمہوریت کا سپاہی ہے، عبادت گاہوں، سکولوں اور مارکیٹوں میں تو کشتوں کے پشتے لگا دے گا لیکن سیاسی جلسوں کے قریب سے بھی نہیں گزرے گا؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال تشویش ناک ہے۔ حکومت پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق یہاں گذشتہ دو ماہ میں سب سے زیادہ کرونا مر یض 16اور 17 جولائی کو سامنے آئے۔
یہ وہی وقت ہے جب وہاں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ یہاں کرونا کے 22 ہزار مریض ہیں اور 600 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔
کشمیر حکومت کے اعدادو شمار کے مطابق ریاست میں کرونا سے ہونے والی اموات کی شرح پاکستان سے زیادہ ہے۔ بھمبر، میر پور، کوٹلی، سدھنوتی، پونچھ، حویلی، باغ، ہٹیاں اور مظفر آباد، ہر شہر اس کی لپیٹ میں ہے۔
یہاں تک کہ وادی نیلم کے دور دراز کے علاقے میں بھی کرونا کے کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ مظفر آباد میں مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافے کی وجہ سے آکسیجن بیڈز کا 33 فیصد مریضوں سے بھر چکا ہے۔
خدانخواستہ اس میں اضافہ ہوا تو ہسپتالوں کی صلاحیت جواب دے جائے گی۔ پھر مریض کہاں جائیں گے؟
پاکستان اس وقت کرونا وائرس کے’ڈیلٹا ویریئنٹ ‘ کی زد میں ہے۔ کراچی میں 24 گھنٹوں کے اندر اس کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں 23 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
لاہور کی صورت حال اس سے بھی خطرناک ہے جہاں اس وقت مریضوں کی 70 فیصد تعداد ڈیلٹا ویریئنٹ کا شکار ہوئی ہے۔
کرونا کے آدھے مریض اس نئے وائرس کا شکار ہوئے ہیں اور ملک بھر میں متاثرین کی شرح پانچ فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ یہ انتہائی خطرناک ہے۔
ڈیلٹا ویریئنٹ کرونا کی زیادہ مہلک شکل ہے۔ عالمی اداری صحت نے اسے ز یادہ تیز اور زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ یہ عام کرونا کی نسبت 50 فیصد تیزی سے پھیلتا ہے۔
اس کے بارے میں مزید تحقیقات ہونا ابھی باقی ہیں تاہم کہا جا رہا ہے کہ یہ وائرس صرف چھونے سے ہی نہیں پھیلتا بلکہ یہ زیادہ دیر تک ہوا میں معلق بھی رہ سکتا ہے۔
اس عالم میں، جب ڈیلٹا ویریئنٹ بھارت میں تباہی مچانے کے بعد پاکستان میں آ چکا ہے اور ہمارے کل مریضوں کا نصف اس سے متاثر ہیں، ہماری غیر سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ہم کشمیر میں انتخابات کرا رہے ہیں اور آئے روز بڑے بڑے جلسے ہو رہے ہیں۔
ہر سیاسی جماعت نے انتخابی مہم چلانے کے لیے ملک بھر سے قائدین اور کارکنان کو کشمیر بھیجا ہوا ہے اور کسی کو اس بات کا احساس نہیں یہ میل ملاپ کتنا تباہ کن ہو سکتا ہے۔
قائدین نے اپنی حفاظت کا تو اہتمام کر رکھا ہے۔ وہ عوام کو اپنے سٹیج سے بہت دور رکھتے ہیں۔ لیکن کیا انہیں سامنے کھڑے اپنے کارکنان پر رحم نہیں آتا؟
جناب وزیر اعظم نے اگلے روز کشمیر میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے لوگوں کو ماسک پہننے کی اہمیت بتا کر گویا ’میلہ لوٹ‘ لیا۔
سوال یہ ہے کیا وزیر اعظم کو علم نہیں تھا کہ کرونا کا خطرہ کس حد تک بڑھ چکا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ کرونا ایس او پیز کے مطابق ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے کی شرط جلسہ عام میں پامال ہو جائے گی؟
سیاسی مفادات کے لیے طبی اصولوں کو پامال کرنا، اپنے کارکنان کو خطرے سے دوچار کرنا اور پھر برائے وزنِ بیت ماسک لہرا کر اقوال زریں سنا دینا کہ احتیاط بہت ضروری ہے، سیاست اب شاید اسی سنگ دل ہنر کاری کا نام ہے۔ ابوالکلام آزاد نے درست کہا تھا: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
کرونا کے خطرے کے پیش نظر سکول بند ہیں، عید کے اجتماعات محدود کرنے کا کہا گیا ہے، عید کے موقعے پر پبلک ٹرانسپورٹ پر ایس او پیزلاگو کر دی گئی ہیں، حج جیسا غیر معمولی اجتماع محدود کر دیا گیا ہے لیکن کشمیر کی انتخابی سرگرمیاں پورے جاہ و جلال سے جاری ہیں۔
شادی کی تقاریب میں اگر ایس او پیز پامال ہوں تو میزبان گرفتار ہو جاتے ہیں۔ لیکن سیاسی جلسوں میں ایس او پیز کو پامال کیا جائے تو قانون ساون نہانے چلا جاتا ہے۔
حکومتی پالیسی کے مطابق جو سرکاری ملازم ویکسین نہیں لگواتا اس کی تنخواہ روک لی جاتی ہے کیونکہ اس نے خود ہی کو نہیں پورے معاشرے کو بھی خطرے میںڈالا ہے۔
لیکن سیاسی رہنما اور خود وزیر اعظم بڑے بڑے جلسوں میں کرونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں تو قانون درجہ چہارم کا دربان بن جاتا ہے۔
وبا کے دنوں میں ہر چیز کا متبادل آیا ہے۔ تعلیمی سرگرمیاں آن لائن ہونے لگیں، دفاتر کے کام گھروں سے کیے جانے لگے اور حاضری محدود کر دی گئی۔
اگر باقی شعبہ ہائے ز ندگی میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ متبادل تلاش کیے جا سکتے تھے تو کشمیر کی انتخاابی مہم کے لیے کیا یہ لازم تھا کہ جلسے کیے جائیں اور عوام کو خطرات سے دوچار کر دیا جائے؟
کیا یہاں بھی عوام تک اپنی بات پہنچانے کے لیے کوئی متبادل راستہ اختیار نہیں کیا جا سکتا تھا؟
پی ٹی وی کے ذریعے مہم چلا لی جاتی، موبائل نیٹ ورک سے مدد لے لی جاتی اور یہ ممکن نہ تھا تو انتہائی محدود پیمانے پر کارنر میٹنگز منعقد کر لی جاتیں۔ وبا کے دنوں میں ہزاروں کے جلسہ عام پر اصرار کیوں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمارے ہاں انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے ٹرن آؤٹ ویسے ہی کم رہتا ہے اور عوام کی اکثریت سیاسی عمل اور انتخابات سے دور رہتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ درست ہے یا غلط لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ غالب اکثریت اس عمل سے دور رہتی ہے۔
اس لاتعلق اکثریت کو بھی ان جلسوں کی وجہ سے اب خطرات کا سامنا ہے۔ سیاسی کارکنان تو اپنے شوق یا مالی مجبوریوں سے جلسوں میں شریک ہوئے لیکن باقی شہریوں کو خطرات سے دوچار کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟
کیا حکومت پاکستان، حکومت کشمیر اور کشمیر کے الیکشن کمیشن کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے؟ لوگوں کی زندگی اہم ہے یا احتیاطی تدابیر سے بے نیاز آپ کے پرہجوم جلسے؟
مارکیٹوں میں انتظامیہ متحرک ہے اور مساجد میں خود صدر محترم جا جا کر دیکھتے رہے کہ کرونا ایس او پی پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں لیکن کشمیر کی انتخابی مہم پر کوئی بات نہیں کر رہا۔
سوال وہی ہے، کیا کرونا نے سیاسی قائدین کو یقین دلا رکھا ہے کہ وہ بھی جمہوریت کا سپاہی ہے اس لیے 73 کے آئین کے تناظر میں وہ کسی سیاسی جلسے کا رخ نہیں کرے گا؟
یا اس نے علی امین گنڈا پور صاحب سے کوئی معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ صرف سکولوں، مسجدوں، بس اڈوں اور شادی کی تقاریب میں لوگوں سے چمٹے گا، کشمیر کی طرف نہیں آئے گا اور اس خیر سگالی کے بدلے میں اسے دو چمچ شہد کے سوا کچھ نہیں چاہیے؟