عرب دنیا لبنان کو کبھی رشک بھری نظروں سے دیکھا کرتی تھی، لیکن مشرق وسطیٰ کا یہ پیرس آج ٹکے ٹوکری ہو کر رہ گیا ہے۔ یہاں کا سیاسی نظام بند گلی میں پھنس چکا ہے۔
لبنان کی معیشت ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے جس کی وجہ سے لبنانی اپنی فوج کے جسم اور روح کا تعلق بحال رکھنے کے لیے غیرملکی ہنگامی امداد کی اپیلیں کرنے پر مجبور ہیں۔
لبنانی باصلاحیت قوم ہے۔ اس محنتی اور تیز طرار قوم نے حالیہ چند دہائیوں کے دوران کئی بحرانوں کا سامنا کیا اور ان میں سرخرو ہوئے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ تیسری مرتبہ لبنان کا مقدر بننے والے بحران سے نکلنا شاید اب بیروت کے لیے ممکن نہ ہو کیونکہ دنیا لبنانیوں کو درپیش مشکلات کو زمینی حقیقت ماننے سے انکاری ہے۔
لبنانیوں کے بارے میں مشہور تھا ’کہ وہ اپنی فضول خرچی سے ان لوگوں کو متاثر کرنے کے شوقین رہے ہیں جنہیں وہ جانتے تک نہیں۔‘ آج ماضی کے یہی ’فضول خرچ لبنانی‘ اس قدر غربت اور تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس خریدنے کی بہت کم چیزیں رہ گئی ہیں۔ ان کے ملک میں بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جنہیں وہ متاثر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اب لبنانیوں کو کوئی غیرملکی کرنسی ادھار دینے کو تیار نہیں۔
لبنان کی قومی شناخت سمجھا جانے والا شاوارما چند برس پہلے دو ڈالر [5000 لیرا] میں ملتا تھا، آج اس کی قیمت 20000 لیرا ہو گئی ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے یہ رقم نصف ڈالر کے مساوی رہ گئی ہے۔
اس سب کے باوجود لبنانی جذبہ جوان ہے۔ خود پر تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے والے لبنانی سوشل میڈیا پر اپنی اس خصوصیت کا بڑھ چڑھ کر پرچار کر رہے ہیں۔ از راہ مذاق کہا جاتا ہے کہ ’لبنان میں رہنے والے نمازوں کی ادائیگی کو یقینی بنائیں ورنہ انہیں دو مرتبہ جہنم کی سیر کرنا پڑے گی۔ ایک مرتبہ لبنان میں قیام اور دوسری مرتبہ روز قیامت جہنم یاترا کی صورت میں۔‘
حالیہ بحران کی وجہ سے زندگی سے غیرمطمئن لبنانیوں کو ایسے مشورے دیے جا رہے ہیں ’کہ آپ تین میں سے کوئی ایک طریقہ اپنا کر بحران کی تلخی کم کر سکتے ہیں۔۔۔۔حریری ہسپتال چلے جائیں، یا حریری ائرپورٹ کے راستے ملک چھوڑ دیں یا پھر [مرحوم] وزیر اعظم رفیق حریری سے ذاتی طور پر ملاقات کا آپشن استعمال کریں۔‘
مشرق وسطیٰ کے پیرس کی شہرت پانے والے اس اہم عرب ملک کی قومی زندگی تضادات میں گندھی ہوئی ہے۔ یہاں فرقہ واریت اور سیکولر ازم ایسے تضادات ایک ساتھ دکھائی دیں گے۔ ایک طرف انتہائی امارات اور دوسری جانب جاں بلب غربت۔ آپ کو لبنان کے الٹرا ماڈرن طبقے کا منہ وہاں بسنے والے قدامت پسندوں کی اکثریت چڑھاتی نظر آئے گی۔
خطے میں لبنانی شہری سب سے زیادہ فعال سمجھے جاتے تھے۔ آج یہ اپنے ہی ملک کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو ہو گئے ہیں۔ اس سب کے باوجود ’لبنانی مخمصہ‘ اپنے باسیوں کے لیے بیک وقت ایک بوجھ اور سرمایہ دکھائی دیتا ہے۔
لبنان میں سیاسی تنوع اور جدت کے جلو میں نفرت اور باہمی لڑائیاں بھی بکثرت دیکھنے کو ملتی ہیں جس کی وجہ سیاسی نظام میں در آنے والے ڈیڈ لاک نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
تاریخی طور پر جب تک لبنان، وہاں کے عوام کی پہلی ترجیح رہا اور وہ خود کو سنی، شیعہ، میرونائٹ یا دروز فرقوں سے ماورا لبنانی شہری سمجھتے رہے تو بیروت کی یہ مسلکی ہمہ ہمی لبنانیوں کا اثاثہ تھی۔ مگر جب انہوں نے فرقہ وارانہ وابستگی کو لبنان سے مقدم جاننا شروع کیا تو ایسے میں یہی مسلکی تنوع ان کے درمیان دشمنی، مقابلے اور تنازع کی بنیاد بن گیا۔
ستر کی دہائی [1975] میں فرقہ پرست رہنماؤں نے لبنان کو تباہ کن خانہ جنگی میں جھونکا۔ ہیچ مفادات کی خاطر کوتاہ بین قیادت نے پڑوسی کو اپنے ہمسائے کے خون کا پیاسہ بنایا۔ اس کے بعد بیروت کی گلیوں میں جو غارت گری ہوئی اسے دیکھ کر منہ سے بے ساختہ الحفیظ الامان ہی نکلتا ہے۔
1990 میں جیسے ہی خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا تو ان رہنماؤں نے مسلکی مفادات کو قومی مفادات پر مقدم جان کر سیاسی منافرت کا بازار گرم کیا اور اس وقت سے اب تک یہی رہنما لبنان سے اس کی خوشحالی کے امکانات کو چھین کر اس کی دولت لوٹ رہے ہیں۔
گروہی اور فرقہ وارانہ مصلحتوں کو لبنان کے قومی مفادات پر مقدم جاننے والی سیاسی قیادت نے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے یہ چال چلی کہ اگر وہ جہموری لبنان کے شہری کی بجائے اپنی وفاداریاں مخصوص مسلک یا گروہ کے سپر کریں گے تو ان کی زندگیاں زیادہ محفوظ ہوں گی۔
ملکی معاملات چلانے کی خاطر اسی سیاسی قیادت نے خود کو مملکت اور شہریوں کے درمیان ناگزیر عنصر بنا لیا۔ لیکن ان کی اقربا پروری، کرپشن اور نااہلی نے ملک دو لخت کر ڈالا۔
علاقائی سیاست میں آنے والے جوار بھاٹے، عالمی وبا اور گذشتہ موسم گرما میں بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے ہلاکت خیز دھماکے نے لبنان کو حالیہ انجام دے دوچار کیا ہے۔
کئی دہائیوں سے لبنان پر یکے بعد دیگرے مسلط کی جانے والی اسرائیلی جنگوں اور قبضے کے بعد عرب دنیا کے اس چھوٹے سے ملک کو شام میں لگنے والی جنگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بیروت کو مرکز بنانے والی حزب اللہ نے بشار الاسد حکومت بچانے کے لیے خود کو مکمل طور پر وہاں کی جنگ میں جھونک دیا۔
لبنان کو اس مہم جوئی کی بڑی انسانی قیمت ادا کرنا پڑی جب ڈیڑھ ملین شامی پناہ گزینوں نے لبنان میں داخل ہو کر اس کی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا۔
دس برسوں سے بیروت کی معاشی، ثقافتی، سیاحتی اور ابلاغی مرکز کے طور پر عالمی شناخت ماند پڑ گئی۔ عرب دنیا کا یہ پسندیدہ ترین سیاحتی مرکز دبئی، دوحہ اور عمان سے کوسوں پیچھے رہ گیا۔
لبنان کی احمق کاروباری ایلیٹ نے انتہائی خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست اور معاشرے کے وسائل ہڑپ کرنے کے ساتھ لبنانیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی پر بھی ہاتھ صاف کرنا اپنا فرض جانا۔
کرپٹ ایلیٹ نے ملک کو درپیش معاشی تباہی، اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور سیاسی ڈیڈ لاک کو دیکھتے ہوئے بھی اپنی روش تبدیل نہ کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لبنان کی قسمت سے کھلواڑ کرنے والے سیکولر اور مذہبی عناصر کی طاقت کا مرکز ثقل بیروت کی بجائے خطے کے دو اہم دارالحکومتوں میں ہے۔
ایسے میں جو حلقے لبنان کے بحران کی حل سے ناامید نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنوکریٹس ملک کو درپیش بحران سے نکال کر معاملات بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بیروت میں سرگرم سیاسی وفرقہ وارانہ جماعتوں کے عزم کے بغیر ٹیکنوکریٹس بھی لبنان کے معاشی مسائل حل نہیں کر سکتے۔
کچھ حلقے بین الاقوامی امداد و مداخلت کے ذریعے لبنان کے معاشی دلدر دور کرنے کی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا انتظام ہو جائے تو لبنان کو درکار سیاسی اصلاحات کے لیے وقت مل جائے گا۔
اس مکتبہ فکر کو شاید معلوم نہیں کہ دنیا کے کتنے ہی غریب ملک ایسی بیرونی امداد کی راہ دیکھ رہے ہیں اور اس امداد کا دامن بھی آئے روز سکڑ رہا ہے۔
یاد رہے کہ لبنان کی امداد کے لیے منعقد ہونے والی آخری بین الاقوامی ڈونر کانفرنس میں 300 ملین ڈالرز سے بھی کم رقم جمع ہو سکی، جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ اس کے مقابلے میں لبنان کے ذمے 93 ارب ڈالر قرض واجب الادا ہے۔ اس قرضے کا موازنہ اگر لبنان کی مجموعی قومی پیداوار سے کیا جائے تو یہ دنیا میں سب سے زیادہ بنتا ہے۔
اگلے مہینے لبنان کے لیے ہونے والی دوسری ڈونر عالمی کانفرنس سے زیادہ امید نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ امداد دینے والی بین الاقوامی برادری ملک میں اصلاح احوال کے لیے ریڈیکل اصلاحات اور عالمی نگرانی میں انتخابات کا مطالبہ شد ومد سے کر رہے ہیں، لیکن لبنان کے بااثر حکمران اس کی راہ میں مزاحم ہیں۔
اس ساری صورت حال میں ’مایوس مگر پرامید‘ حلقے سمجھتے ہیں کہ ایرانی جوہری معاہدے کا اونٹ اگر کسی کروٹ بیٹھ گیا تو علاقائی اور مغربی طاقتیں لبنان میں سیاسی تصفیہ کرانے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس کے بعد خلیجی ممالک اور سعودی عرب، لبنان میں سرمایہ کاری پر تیار ہو سکتے ہیں۔
بحران کے دنوں میں اب آخری امید لبنان کے عوام اور سول سوسائٹی ہیں کہ وہ اپنی عوامی اور شہری قوت کو سیاسی طاقت میں تبدیل کرتے ہوئے فرقہ واریت سے پاک سیاسی جماعتیں تشکیل دینے کے لیے آگے بڑھیں تاکہ جمہوری تبدیلی کی راہ ہموار ہو سکے اور فرقہ واریت کی بیخ کنی ممکن ہو۔
اس مشکل اور طویل راستے کے سوا لبنان میں جمہوریت کو ٹریک پر لانے کے لیے کوئی دوسرا جادوائی شارٹ کٹ میسر نہیں۔ بحران دراصل حقیقی تبدیلی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
لبنان کو درپیش ڈرامائی بحران وہاں کے جمہوریت پسندوں کے لیے منفرد موقع ہے کہ وہ بپھرے ہوئے عوام کو اس ملک کی تعمیر کے لیے راغب کریں کہ جس سے تمام لبنانی محبت کرتے ہیں۔