اسلام آباد کا پرتشدد قاتل اور اس کے سہولت کار

انسانی رویے روپوں اور ڈگریوں سے نہیں جوڑے جا سکتے۔ یہ محض تربیت اور مسلسل ذہنی نشونما کا وہ ثمر ہے جو والدین اپنی توجہ اور محنت سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر قتل معاشرے کی کسی اجتماعی وبا کی نشاندہی کرتا ہے۔

دولت اور تعلیم جرائم کی وجہ نہیں اور نہ ہی تعلیم یافتہ اور باوسائل ہونا ازخود جرم ہے۔ مگر اپنی نسلوں کی تربیت اگر ہم نے محض وسائل اور تعلیمی نظام کے سپرد کر دی تو پھر ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہیں گے(تصویر: اے ایف پی)

پچھلے ہفتے عید سے ایک دن پہلے اسلام آباد میں قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی۔ عمومی تفصیلات کے مطابق ایک سابق سفیر کی دختر کو ایک بڑے کاروباری گھرانے کے سپوت نے مبینہ طور پر بے دردی سے قتل کیا۔

درج کی گئی ایف آئی آر میں ایک تیز آلے اور گہرے زخم کے نشان کا ذکر ہے۔ مبینہ قاتل گرفتار کر لیا گیا اور ماں باپ کے نازونعم میں پلی ہوئی بیٹی سپرد خاک ہوئی۔

قتل کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کون کتنا ذمہ دار تھا؟ تحقیقات اور مقدمے کی کارروائی کے بعد پتہ چلے گا۔

فی الحال سوشل میڈیا پر منہ کے بل گرے شخص کی ایک تصویر گردش کر رہی ہے جو نکر میں ہے اور اس کا لمبا چوڑا جسم چادروں اور رسیوں میں بندھا ہوا ہے۔

ہمارے ملک میں یہ نہ ہی پہلا قتل ہے اور نہ ہی آخری ہوگا۔ اس کی بربریت اور تشدد بھی انہونا نہیں۔ قاتل مقتول کے ٹکڑے کر کے بوریوں میں بھرتے ہیں، اعضا علیحدہ کر دیے جاتے ہیں، لاشیں آگ اور تیزاب میں ضائع کرنے کی خبریں بھی ان گنت ہیں۔

مگر اس واقعے کا غیر معمولی پہلو بظاہر تعلیم یافتہ طبقے میں سے ان رویوں کی رپورٹ ہے جو ہم عموما وحشت زدہ وحشیوں سے جوڑتے ہیں۔ جدید زندگی گزارنے کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ دولت، سہولت اور کامیاب تعلیمی کیریئر ہمیں انسانیت کے ان فضائل سے روشناس کراتا ہے جو محروم طبقات کے نصیب میں نہیں۔

لاکھوں روپے ماہانہ تعلیم پر خرچ کرنے والے خاندان اور ان سے اربوں روپے کمانے والے ادارے یہ سمجھتے اور دوسروں کو باور کرواتے ہیں کہ زندگی کے لطیف اور بامقصد معنی کتابوں اور امتحانوں کے دشوار راستوں سے گزر کر ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

’پڑھو گے لکھو گے بنو کے نواب‘ کا مقولہ موسیقی کی اس دھن کی طرح ہے جو کئی مرتبہ سننے کے بعد ازخود دماغ میں مسلسل بجتی رہتی ہے۔ اسی طرح ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وسائل سے محرومی احساس کمتری میں تبدیل ہو جاتی ہے، جو شخصیت کو مسخ کر کے جذبات کو غیر نکاس شدہ پانی میں تبدیل کر دیتی ہے جس میں جرائم، انتقام، اور قابو پانے کی ناقابل تسکین شیطانی خواہشات پنپتی ہیں۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے۔یعنی اگر عقل نہ بھی ہو تو مالدار ہونے کی وجہ سے آپ معاشرے میں ایک بناوٹی مگر باعزت زندگی گزار سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں ہونے والے قتل میں استعمال شدہ تیز دھار آلے نے ان تمام مفروضوں کی تکہ بوٹی کر دی ہے۔ اگر قتل کی جانے والی جان پر چھریاں چلانے کی خبر میں صداقت ہے تو یہ ان ویڈیو  سے کیسے مختلف ہے جن میں کٹے ہوئے سروں کے ساتھ لوگ فٹ بال کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں؟

کسی کمزور اور بے کس کو اپنے پیاروں سے جدا کرنا ان مظالم سے کیسے مختلف ہے جن کی داستانیں سنا کر ہم اپنے بچوں کو تہذیبوں کی عظمت اور پستیوں کو فرق سمجھاتے ہیں؟ اس تعلیم کے نظام کے بارے میں ہم کیا رائے قائم کریں جس کی کوکھ میں سے پستول، بندوقیں لہراتے ہوئے خون آشام عنفریت پیدا ہو رہے ہیں؟

اس دولت و ثروت سے لدے ہوئے طبقے کو ہم کس نظر سے دیکھیں جس کے وسیع باغوں اور بھری تجوریوں سے جہنم کے شعلوں سے زیادہ تکلیف دینے والی بلائیں جنم لیتی ہیں؟

دولت اور تعلیم جرائم کی وجہ نہیں اور نہ ہی تعلیم یافتہ اور باوسائل ہونا ازخود جرم ہے۔ مگر اپنی نسلوں کی تربیت اگر ہم نے محض وسائل اور تعلیمی نظام کے سپرد کر دی تو پھر ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانی رویے روپوں اور ڈگریوں سے نہیں جوڑے جا سکتے۔ یہ محض تربیت اور مسلسل ذہنی نشونما کا وہ ثمر ہے جو والدین اپنی توجہ اور محنت سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر قتل معاشرے کی کسی اجتماعی وبا کی نشاندہی کرتا ہے۔

ہم اکٹھے ہو کر جو بیج لگاتے ہیں پرتشدد اور خونی واقعات کی فصل صورت میں ہمارے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہو یا نریندر مودی قیادت جو عمومی سیاسی راہ متعین کرتی ہے وہ سماجی رویوں کی سمت تبدیل کر دیتی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاہ فام آبادی کے خلاف بدترین تشدد کے واقعات کروانے کا الزام نہیں دیا جا سکتا مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس نے سفید فام ووٹر کو اپنے مقاصد کے لیے ایسے بھڑکایا کہ اس کے غصے کی آگ ہرطرف پھیل گئی۔ ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینے کے لیے صرف ہنددتوا کے نام پر ووٹ مانگنا ہی کافی تھا۔

ہمارے ہاں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی نہیں بلکہ بظاہر بے ضرر قسم کی سیاست ہے جو ہم نے آزادی سے لے کر اب تک مذہب کے نام پر فروغ دی۔ قاتل کے عدم برداشت معاشرے کی عدم برداشت کی ایک مثال ہے۔

انتقام اور ظلم میں انتہاپسندی طاقتور طبقات کے مزاج سے نکلتی ہے۔ جب ہم روزانہ سیاسی دشمنی میں خاندانوں کو ریزہ ریزہ کرنے کی خواہشات کا اظہار ہوتے دیکھتے ہیں، جب ہم منہ پر ہاتھ پھیر کر اذیت دینے کے وعدے قوم کے ساتھ کرتے ہیں، جب ہم سیاسی جتھوں کو دوسروں کے گھر گرانے اور ان کو گردن سے پکڑ کر گھسیٹنے کہ شہ کو شاندار معاشرے کی بنیاد کے طور پر بتلاتے ہیں تو ہر دیکھنے اور سننے والا متاثر ہوتا ہے۔

واقعات کا بہاؤ اور غصے کا ابال انسان کو شیطان بنانے میں یقینا اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اگر ضبط کا مدافعتی نظام ہر طرف پھیلی ہوئی بربریت اور انتقام و تذلیل کے طوفان کے سامنے ٹوٹ پھوٹ چکا ہو تو پھر حدیں پھلانگنا آسان کام ہے۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ قاتل محض قتل کرتا ہے، معاشرہ اور طاقت کا نظام تریبیت اور مثال کے ذریعے اس کے سب سے بڑے سہولت کار ہیں۔ جس ملک میں طاقتور اپنے سیاسی مخالفین کی تذلیل کو باعث تسکین سمجھتے ہوں، جہاں دوسروں کے بچوں کو کنکریاں مارنا احسن قدم گردانا جاتا ہو وہاں ذاتی مقاصد کے لیے کسی کے پیارے کو اس سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کردینا یا سر کو تن سے جدا کر دینا کیا مشکل ہو گا؟

قاتل کے سہولت کاروں کے خلاف اگر ایف آئی آر درج ہو سکتی تو آج نجانے کون کون جیل میں ہوتا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ