معاشرہ جنسی جرائم سے سہما پڑا ہے اور چارہ گروں کو فکری شوخیاں سوجھ رہی ہیں۔ جو انتظامی امور کے ذمہ دار تھے وہ عورت کے لباس کو لے بیٹھے۔ اہل مذہب نے تاویلات تراشیں اور ایسی کہ سب کو پریشان کر دیا۔
جو روشن خیال تھے وہ بھی اس انداز سے بروئے کار آئے کہ ہدف کہیں تھا، نشانہ کہیں۔ انسانی سوچ کا عمل جب ایک مخصوص نظری دائرے میں آگے بڑھتا ہے تو ایسے ہی المیے جنم لیتے ہیں۔ آدمی یک رنگی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس پر دیگر ذرائع علم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ادھورے سچ کو آفاقی حقیقت سمجھ لیتا ہے۔
وزیر اعظم ایک انتظامی عہدے کا نام ہے۔ اس منصب کا اولین تقاضا یہ نہیں کہ جنسی جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قوم کی فکری رہنمائی کی جائے۔ اس کا اولین فرض قانون کا نفاذ اور ناگزیر انتظامی اقدامات ہیں۔ جب یہ ہو جائے تو پھر کسی سطح پر معاملے کے سماجی، نفسیاتی، تہذیبی پہلو پر بھی بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسے مرحلے پر جب مدارس سے یونیورسٹیوں تک جنسی جرائم کی شکایات سامنے آ رہی ہوں، انہیں قوم کی فکری رہنمائی کی بجائے قانون کے نفاذ پر توجہ دینی چاہیے۔ چیزوں کی ترتیب درست رہنی چاہیے۔
عورت کے لباس کو موضوع بنانے کا یہ کون سا موقع تھا؟ جنسی جرائم کے حالیہ واقعات میں عورت تو کہیں موجود ہی نہیں کہ اس کے لباس پر مضامین باندھے جاتے اور بین السطور اسی کو مورد الزام قرار دیا جاتا۔ ایک جرم مدرسے میں ہوا ایک یونیورسٹی میں۔ فریقین مرد تھے۔ مفتی کے ہاں تو اتنا اہتمام تھا کہ جسم تو کیا انہوں نے جائے قوعہ پر سر بھی ننگا نہیں ہونے دیا۔ جبر کا شکار نوجوان بھی پورے کپڑوں میں ملبوس تھا۔
وزیر اعظم مزید کتنے کپڑے پہنانا چاہتے ہیں، کیا ہر عورت اور ہر نوجوان خیمہ اوڑھ کر گھروں سے نکلے کیونکہ وطن عزیز کے مرد ’روبوٹ نہیں ہیں؟‘ اور ان کے جذبات کے بحر ظلمات میں کہیں بھی کسی بھی وقت سونامی آ سکتا ہے؟
اہل مذہب پاپائیت کی طرف گامزن ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ ان کے تقدس پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے۔ ہمارے ہاں ’فعل ماضی‘ ہوتے ہی شخصیات پر تقدس کا غلاف اوڑھا دیا جاتا ہے چنانچہ تاریخی طور پر ایک معروضی مطالعہ ہو ہی نہیں پایا۔ یہ مطالعہ ہوا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ فقہی لٹریچر میں شوخی ناز سے مضمون اٹھاتے ہوئے یہ جو ’ علت شیخ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے تو یہ کون کون سی ’ علت‘ تھی اور کن کن ’ شیوخ‘ میں تھی۔ نیز یہ کہ اسے محض علت کا ہومیو پیتھک قسم کا نام دے کر معاملے کی سنگینی کم کی جا سکتی ہے یا یہ ایک جرم ہی قرار پائے گی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رومی اور شمس تبریزمیں یا محمود و ایاز میں تعلق کی نوعیت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں چونکہ ہر ’فعل ماضی‘ پر تقدس اوڑھا دیا جاتا ہے اس لیے یہاں ایسے سوالات رواج نہیں پا سکے۔ اقبال رومی کو پیر قرار دیتے ہیں اور محمود و ایاز ان کی رائے میں ایک صف میں کھڑے پائے جاتے ہیں تو کمال ہو جاتا ہے۔ ذرا فارسی کا قدیم لٹریچر بھی تو پڑھ کر دیکھیے کہ سلطان نے ایاز کی زلفیں تراشنے کا حکم کیوں دیا تھا اور ایسا کیا ہوا تھا کہ شعرا نے لکھا کہ ’قریب تھا کہ تقوے کا دامن سلطان کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا۔‘
پھر زلفوں کے کٹ جانے پر سلطان کا دکھی ہو جانا، اس اداس گھڑی میں فردوسی کا سلطان معظم کو شعر سنانا کہ پریشان نہ ہوں سرو کا درخت کانٹ چھانٹ کے بعد اور حسین ہو جاتا ہے۔ اور پھر سلطان معظم کا یہ شعر سن کر اپنے ملک الشعرا کا منہ جواہرات سے بھر دینا۔ یہ کیا تھا؟ یہ ’فعل ماضی‘ تھا جو تقدس کے غلاف تلے کہیں لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔
ایک طبقے کے خیال میں یہ محض گھٹن کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ معاشرے کی گھٹن دور کر دی جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ بھی ادھورا سچ ہے کیونکہ جن معاشروں میں یہ گھٹن نہیں ہے یہ جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں۔ محض گھٹن کے خاتمے سے یہ برائی ختم ہو سکتی تو ان معاشروں میں ختم ہو چکی ہوتی۔
مدارس سے جامعات تک خرابی بڑھتی جا رہی ہے۔ سمسٹر سسٹم نے طلبہ کو بے دست و پا کر چھوڑا ہے۔ ہمارے بچے اور بچیاں اپنے ہی اساتذہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ جن کے ہاتھ میں بچوں کا مستقبل ہو ان کے آگے بچوں کی بے بسی کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ سمسٹر سسٹم میں شفافیت اور چیک اینڈ بیلنس کا جو نظام ہونا چاہیے تھا وہ ہمارے ہاں نہیں ہے۔ کوئی شکایت کر دے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ ادارہ بدنام نہ ہو۔ ملزم کی بجائے متاثرہ فریق کا بیان لیتے ہوئے اس کی ویڈیو وائرل کر دی جاتی ہے تا کہ آئندہ کوئی شکایت کرنے کی ہمت ہی نہ کر سکے۔
ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے سب سے پہلے انتظامی اصلاحات اور قانون کے نفاذ کا مرحلہ آتا ہے۔ ہمارے ادھورے سچ اور ہمارے اقوال زریں اس کے بعد آتے ہیں۔ ویسے بھی مجرم کا نفسیاتی مطالعہ، سماجی رویے اور لباس کے آداب وغیرہ یہ سماجیات اور نفسیات کے ماہرین کا میدان ہے۔ وزیر اعظم کا نہیں۔ وزیر اعظم خواتین کے لباس کی بجائے اپنے طرز حکمرانی کی فکر کریں۔ یہاں تو وہ بھی روندے جا رہے ہیں جن کے لباس بھی پورے ہوتے ہیں اور جن کے دودھ کے دانت بھی ابھی نہیں گرے ہوتے۔ یہاں ایسے معصوم بھی کچل دیے جاتے ہیں اور پھر ان کے کٹے ہوئے لاشے ملتے ہیں جن کے ہونٹوں سے ماں کے دودھ کی مہک بھی ابھی ختم نہیں ہوئی ہوتی۔
مختصر لباس ریپ کی کوئی توجیح نہیں۔ کوئی ایسا سمجھتا ہے تو یہ اس کا نقص فہم ہے۔ تا ہم اس سے قطع نظر، وزیر اعظم ذرا اعدادو شمار منگوا کر دیکھ تو لیں کہ ملک میں عصمت دری (ریپ) کے کتنے واقعات ہوئے ہیں اور ان میں کتنے متاثرین نے مختصر لباس پہن رکھا تھا۔ پتہ تو چلے ملک میں روبوٹ کتنے ہیں اور اولو العزم کتنے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔