اسلام آباد ویڈیو سکینڈل سامنے آنے کے بعد یہ ثابت ہوگیا ہے کہ وضع قطع لباس، رہائش کا انداز، کاروبار وغیرہ جیسے پیمانے لوگوں کی اصلیت ناپنے کے لیے استعمال نہیں ہونے چاہییں۔
جس گروہ نے جواں سال جوڑے کی بیچارگی کو فلم بند کیا، ان کو بدترین صورت حال میں مبتلا کیا اور پھر انتہائی دیدہ دلیری سے اپنے قبیح اقدام کو زندگی کے عام بہاؤ میں شامل کرکے معمول کے مطابق شب و روز بسر کرتے رہے، ہمارے معاشرے کے بظاہر نارمل شہری نظر آتے تھے۔ قومی لباس، پینٹ شرٹ، ہاتھ پر گھڑیاں اور زبان پر موقعے کے مطابق دین مذہب اور تہذیب کے حوالے۔
کسی عام سی نشست میں بیٹھیں تو ایسے درجنوں لوگ آپ کو نظر آئیں گے جو انہی جیسے ہیں مگر اعمال میں شاید ان سے بہت بہتر۔ اس گروپ نے جس درندگی کا مظاہرہ کیا اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ کمزور کے تحفظ کے لیے محض قانون سازی کافی نہیں۔
کمزور اگر کسی استحصالی گروپ کے ہتھے چڑھ گیا تو قانون کی ایمبولینس کے آتے آتے اس کی عزت کا جنازہ نکل جائے گا۔ اس جوڑے نے اپنی طرف سے معاملہ ختم کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنی عزت کا سودا خاموشی سے قبول کرلیا اور اگر یہ ویڈیو سامنے نہ آئی ہوتی تو یہ گروپ ’عزت دار‘ شہریوں کی طرح اپنے گھروں میں ماؤں، بیٹیوں، بہنوں، بیویوں کو اچھی زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہوئے وقت گزار رہا ہوتا۔ ان کا نشانہ بننے والے تاہم اپنے زخم چھپائے ساری زندگی اندر ہی اندر سسک سسک کر گزار رہے ہوتے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یہ گروپ اس طرح کے کام بطور ’شغل‘ کیا کرتا تھا۔ شو روم اور جائیداد کی لین دین کرتے ہوئے فلیٹس کرائے پر دے کر لڑکے لڑکیوں کو دعوت دیتے اور پھر ان پر چھاپے مار کر وہی حرکات کرتے جو اس ویڈیو میں نظر آئیں۔ اس طرح کے گروپ سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں مگر چونکہ دوسروں کی کمزوریاں اپنے ٹیلی فونز میں فلم بند کیے ہوئے ہیں، لہذا اسلام آباد کے ان ملزموں کی طرح خود کو چھپا کر نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔
بڑا سوال یہ ہے کہ اس طرح کی بلیک میلنگ کا نشانہ بننے والے خود کو اتنا مجبور اور بےکس کیوں سمجھتے ہیں کہ اپنی انتہائی تذلیل کے باوجود اس کی رپورٹ درج کروانا گوارا نہیں کرتے؟ اس سوال کا آسان سا جواب خوفناک حقائق کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
لوگ اس وجہ سے خاموش ہو جاتے ہیں کہ ان کو نہ تو قانون کے اداروں پر اعتماد ہے اور نہ معاشرے کی مدد اور ہمدردی پر۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو انصاف کے حصول میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے کہیں زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
رشتہ دار، محلے والے ان تفتیشیوں سے کہیں زیادہ تمسخرانہ انداز اپنائیں گے جو جرم کی تفصیل سے سستے چسکے حاصل کرتے ہیں۔ ان کو یہ بھی احساس ہے کہ یہ معاشرہ زیادتی کرنے والے سے زیادہ زیادتی کا شکار ہونے والے پر سختی کرتا ہے۔
جنسی جرائم کا شکار خواتین و بچے اسی تہمت کے خوف میں ڈر کے چُپ ہو جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والا جرم کہیں ان ہی پر شک کی بنیاد نہ بن جائے۔ جس معاشرے کی قیادت جنسی جرائم کو کپڑوں سے جوڑتی ہوں اور جہاں پر یہ خیال پھیلایا جائے کہ مرد کی گندی نیت اس کی نظر میں موجود تصویر کے تابع ہے وہاں پر خاموشی کو ہی انصاف اور عافیت سمجھا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلام آباد میں مختلف پارکوں میں گھومنے والے سکیورٹی کے اہلکار دوسرے شہروں کی طرح اکثر ’جوڑوں‘ کی تلاش میں موٹر سائیکل کی لائٹیں بند کر کے پارکوں میں گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میں نے خود وردی میں ملبوس اہلکاروں کو لڑکوں اور لڑکیوں سے ایک بینچ پر بیٹھنے کی وجہ دریافت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے اور وہ دو گھنٹے سے کیوں بات چیت کر رہے ہیں؟ یہ سوال کرتے ہوئے سنا ہے۔
ملک کی یونیورسٹیوں میں اخلاقیات کے ٹھیکیدار کینٹینز اور گراؤنڈز میں لڑکے اور لڑکی کو اکٹھا بیٹھے دیکھ کر حملے کر دیتے ہیں۔ انتظامیہ بچیوں کے لباس کے حوالے سے بالخصوص ہدایات جاری کرتی ہے۔ سیاحتی مقامات پر حجاب کی اہمیت اجاگر کرنے والے بورڈ لگے ہیں۔
جس معاشرے میں اخلاقیات کے اتنے معمار ہوں وہاں پر ایسے ہی تعمیراتی کام ہوں گے جیسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ کسی سیانے نے کہا تھا کہ جنسی ہوس کے خلاف کام کرنے والے اس ہوس کا سب سے بڑا خود شکار ہوتے ہیں چونکہ وہ ہر وقت اسی سوچ میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کے اپنے ذہن کا کچرہ دوسروں کے دامن پر نظر آتا ہے۔
مگر اس واقعے کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرنا اس گروہ کے لیے تو شاید شغل ہو گا مگر ہماری سیاست کے کھیل میں اب اس قسم کے سیاہ کام ایک روایت کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔
جج ارشد ملک ویڈیو کیس بھی تو یہی تھا۔ ایک پرانی ویڈیو کو استعمال کرکے سیاست کا رخ بدلنے کا انتظام کیا گیا۔ احتساب اور انصاف کے شعبوں میں بھی اس طرح کی ویڈیوز کے اثرات ہر جگہ زیر بحث آتے ہیں۔
یہ وہ سرپرستی ہے جو ریاست اور حکومت کے ذریعے اسلام آباد کے گروہ جیسے لوگوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے نہیں ہوتا، مگر سرپرستی کے لیے پالیسی بنانا ضروری نہیں ہے۔
چند بڑی مثالیں ہی کافی ہیں۔ جہاں پر سیاست، احتساب، انصاف سے متعلق بحث شرمناک ویڈیوز کے گرد گھوم رہی ہو وہاں پر اس طرح کے گروہ شغل میں ایسے کام نہ کریں تو حیرت ہوگی۔